1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Banu Qurayza Ki Talash

Banu Qurayza Ki Talash

بنو قریظہ کی تلاش

آج صبح مَیں جب ہوٹل سے نکلا تو ارادہ یہ تھا کہ پہلے اُس علاقے کو دیکھوں جہاں بنی قریظہ آباد تھے۔ مجھے اُس قبیلے کے بارے میں ایک تجسس تھا کہ وہ بدقسمت قبیلہ کیوں کر قتل ہوگیا اور اگر قتل ہوا تو اُس کے آثار کہاں ہیں۔ یہاں مدینہ میں اُن کے آثار کے بارے میں بتانے والا تو ایک طرف، کسی کو خبر بھی نہیں کہ یہ کون بلا ہیں؟

خیر پرانے نقشوں کی مدد سے جو مجھے صرف نیٹ پر مہیا ہوئے تھے، اندازے کے مطابق پیمائشیں کرتے ہوئے مَیں نے اپنا ایک حساب لگایا کہ اُس قبیلے کے آثار فلاں جگہ پر ہو سکتے ہیں، یہ خیال کرکے چل پڑا۔ اِس معاملے میں ایک ذہین آدمی سے اچھی خاصی گپ شپ بھی ہوئی۔ اِسی دوران ایک بات میرے ذہن میں بار بار در آتی تھی کہ آخر امام زین العابدینؑ کا اصلی گھر اور امام باقرؑ اور جعفر صادقؑ کے گھر اور مکتب کہاں تھے جہاں وہ عوام الناس کو تعلیم دیتےتھے۔ کیونکہ جس کسی سے بھی پوچھا اُس نے یہی بیت الحزن کو ہی امام زین العابدین کا گھر بتایا حالانکہ یہ بات بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ بی بی فاطمہ کا گھر تھا اور یہاں وسیع کھیتی باڑی کا کوئی علاقہ نہیں تھا، اُدھر امام زین العابدین کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے مسکن کے پاس ہی زراعت کرتے تھے۔ اِس لیے میرا دل نہیں مان رہا تھا۔

ایک دوسری بات یہ بھی تھی کہ یہ گھر مدینے کے بالکل قریب تھا جب کہ مَیں نے تاریخ میں پڑھا تھا کہ وہ کم و بیش چارمیل مدینے سے باہر رہتے تھے، جو سات کلومیٹر فاصلہ بنتا ہے۔ یہ سوچتا جاتا ہوں اور چلتا جاتا ہوں۔ قریب سوا گھنٹہ چلنے کے بعد مَیں نے دیکھا کہ کھجوروں کے باغات شروع ہو گئے ہیں اور ایک کے بعد ایک باغ آنے لگا۔ میرا رُخ جنوب کی جانب تھا۔ راستے میں کئی لوگوں سے پوچھا مگر کسی نے خبر نہ دی۔ آخر ایک جگہ پہنچا۔ دیکھا کہ پرانے مکانات کے کھنڈر ہیں اور ارد گرد اُس کے کرینیں اور ایکسیویٹر چل رہے ہیں اور ساتھ چاروں سمت باغ ہیں اور کھجوریں بیچنے والے ٹھیلے لگائے بیٹھے ہیں۔

مَیں نے ایک صاحب سے پوچھا میاں بھائی، یہ کون سی جگہ ہے؟ اُس نے بتایا یہ امام زین العابدینؑ کے نام سے منسوب باغ ہے اور اُس طرف دور دیکھو، وہاں اُن کے گھر کے آثار اور کنواں ہے۔ ہائیں، یہ کیا؟ لیجیے بھائی کہاں جا رہا تھا اور کہاں جا پہنچا۔ فوراً مولا امام زین العابدینؑ بیمارِ کربلا کے در پر جا پہنچا۔ اب جو دیکھا تو وہاں ارد گرد ایسے ہرے بھرے باغ اور کھیت اور کنووں کا پانی جو کاریزوں میں چل رہا تھا۔ پرندے اُڈاریاں بھر رہے تھے اور بطخیں پانیوں میں تیر رہی تھیں اور کجھوروں کی تہوں میں ٹھندا پانی پھیریاں دے رہا تھا۔ حوض شفاف پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ مَیں نے وہاں درودو سلام پڑھے، گھنٹوں بیٹھ کر اُن کے دروازے پر جبہ سائی کی۔ اُس کنویں کو اور گھر کو گویا دل کی پلکوں سے چومتا رہا جہاں فرشتوں نے پر بچھا رکھے تھے۔

وہاں ایک آدمی کھجوریں بیچ رہا تھا۔ اُس سے آدھ کلو کھجوریں لیں، ٹھنڈا پانی پیا اور وہیں پسر کے بیٹھ گیا اور تصور کرنے لگا کہ گویا مولا کے در پر بیٹھا ہوں اور وہ آس پاس کام میں مصروف ہیں اور مجھے دیکھ رہے ہیں کہ علی اکبر ناطق دیارِ ہند سے آیا ہے۔ اِس کی آرزوئیں پوری کرنا ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک لڑکا خود بخود میرے پاس آیا اور آہستہ سے بولا، آپ شیعہ ہو؟ مَیں نے کہا جی ہاں شیعہ ہوں۔ اُس نے کہاں، میرا نام نقیب ہے، مَیں پارہ چنار کا ہوں، یہاں پندرہ سال سے ٹیکسی چلا رہا ہوں۔ آپ بالکل ٹھیک جگہ پہنچے ہیں، کس نے بتایا ہے؟

مَیں نے کہا مَیں تو اندازے سے پہنچا ہوں۔ اُس نے کہا، کیسے؟ مَیں نے کہا پیدل آیا ہوں۔ اب اُس نے کہا، دیکھو، یہ جس باغ میں تم بیٹھے ہو یہ مولا علیؑ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اور سلمان بھی یہاں کام کرتا تھا۔ یہ قریب جو کنواں ہے، یہ بھی مولا علی نے کھودا تھا۔ اور یہ سامنے جو سکول تم دیکھ رہے ہو، یہ امام جعفر صادقؑ کی یونیورسٹی تھی۔ مجھے بھی پہلے پہل کچھ عراقی زائروں سے پتا چلا تھا اور پھر ایرانی بھی اکثر یہاں آتے تھے۔ اب پاکستانی بھی آنے لگے ہیں۔ پچھلے پانچ سال سے سعودی گورنمنٹ نے اِسے سلمان فارسی کے باغ کا نام دے دیا ہے تاکہ اہلِ بیت کا ذکر نہ آئے اور لوگ کم آئیں۔

مَیں نے کچھ دیر اُس سے باتیں کرنے کے بعد اب اِس کی تصدیق کسی دوسری طرف سے کرنا چاہی۔ کچھ دیر بعد مَیں ایک عرب سے ملا جو وہاں کجھوریں بیچنے والوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ مَیں تھوڑی دیر وہاں رُکا رہا، پھر ہمت کرکے پوچھا، بھائی ذرا یہ بتایے، وہ گھر کے آثار جو ہیں وہ کس کا گھر ہے اور یہ باغ کس کا ہے؟

اُس نے کہا، وہ امامِ حسینؑ کے بیٹے علی زین العابدین کا گھر ہے اور یہ باغ بھی اُنھی کا ہے۔

کیا وہ مدینہ شہر میں نہیں رہتے تھے؟ مَیں نے پوچھا۔

نہیں وہ کربلا سے آنے کے بعد یہیں مستقل رہنے لگے تھے اور یہ جو سکول کی عمارت ہے یہاں اُن کے بیٹے جعفرؑ کا مدرسہ تھا۔ یہ شیعوں کے چھویں امام تھے۔

یہ ساری باتیں اپس نے عربی میں بتائیں جو بڑی آسانی سے سمجھ آ گئیں۔ خیر اب مَیں وہاں کافی دیر بیٹھا رہا اور پورے منظر کو دل میں اُتارتا رہا، تو گویا جب علیؑ اکبر کے سینے میں برچھی مارنے والاسنان (خدا اُس پر لعنت کرے) مختار سے بھاگ کر مدینہ پہنچا تھا تو یہیں رُکا تھا اور اُس نے امام زین العابدینؑ سے تین دن چھپنے کے لیے ٹھکانا مانگا تھا اور امام نے اُس بھیڑے کو بھی پناہ دے دی۔ لیکن اُسے پتا چلا گیا کہ یہ تو وہی حسینؑ کا بیٹا ہے۔ جانے لگا تو بولا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ امام رو پڑے اور کہا بھلا مَیں علی اکبرؑ کے برچھی مارنے والے کی شکل بھول سکتا ہوں؟ لیکن مَیں اپنے دین کی حدود میں قید ہوں اور اپنے نانا کے عہد کا ذمہ دار ہوں۔

تب وہ خبیث وہاں سے نکلا اور مدینہ میں داخل ہوگیا اور دوسرے ہی دن مختار کے سپاہیوں نے اُسے مدینہ سے گرفتار کر لیا اور سر قلم کر دیا۔

مقصد یہ تھا کہ وہ جگہ بھی یہی تھی اور مدینہ میں اہلِ بیت کی معیشت کا بندوبست بھی یہیں سے ہوتا تھا۔ آئمہ طاہرین خود اپنے ہاتھوں سے اِن زمینوں میں کام کرتے تھے۔ آخر دو تین گھنٹے بعد مَیں یہاں سے نکلا کیونکہ مجھے ایک شخص نے بتایا کہ یہاں سے فلاں سڑک پر جائوں، وہاں ایک اور کنواں بھی ہے جو حضرت علی نے کھودا تھا۔ مَیں یہ سُن کر اور آگے چل دیا۔ دس منٹ چلنے کے بعد مَیں نے دیکھا اچانک ایک کھنڈر کے آثار نمودار ہوئے۔ یہ کافی بڑا کھنڈر تھا۔ اور یہی بنو قریضہ کا منطقہ نکلا۔

باقی پھر عرض گزاروں گا۔ بہت دلچسپ کہانی ہے۔۔

Check Also

Shahbaz Sharif Se Awami Tawaquat

By Umar Khan Jozvi