Banu Qurayza Ke Khandar Aur Mola Ali Ke Zakhmi Paun
بنی قریظہ کے کھنڈر اور علیؑ مولا کے زخمی پائوں
مولا علیؑ کا ایک اور کنواں ڈھونڈنے کی آرزو میں مَیں مزید جنوب کی طرف چلا اور ایک ہائی وے پر آ نکلا۔ مجھے نظر آ رہا تھا کہ ہائی وے کے دوسری طرف کھنڈر کے آثار ہیں مگر یہاں ٹریفک اتنی زیادہ اور تیز تھی کہ اُسے پار کرنے کے لیے انسان کا چھلاوہ بننا ضروری تھا ورنہ کچلے جانے کے امکان سو فیصد تھے۔ دس پندرہ منٹ یہاں کھرا رہنے کے بعد آخر مَیں نے ذرا سی دراڑ پا کر ہائی وے پر سر دے ہی دیا اور کھنڈر میں جا پہنچا۔
یہ کھنڈر ایک بلندی پرتھا جو کم و بیش تیس سے چالیس کنال کا رقبہ تھا اور اِس سے آگے مکان ہی مکان تھے۔ یہ تمام جگہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر معلوم ہوتی تھی لیکن مَیں دیکھ رہا تھا کہ پہاڑی اور نیچے کہیں دب چکی تھی۔ یہ کھنڈر انتہائی سیاہ پتھروں سے بنے تھے۔ مَیں کچھ دیر یہاں کھڑا رہا اور ارد گرد پھیلے ایک طرف سے کھجوروں کے باغوں اور دوسری طرف کی آبادی کو دیکھتا رہا جو ظاہر ہے بعد میں اختیار کی گئی تھی۔ یہ بالکل ویران علاقہ تھا، کوئی راہ گیر نہیں تھا۔ جس سے اِس کھنڈر کی بابت پوچھتا آخر کار شمال کی طرف چل پڑا۔
اچانک دائیں ہاتھ میرے ایک بڑا سپر سٹور نظر پڑا مَیں نے سوچا چلیے یہاں سے ایک بران بریڈ کی کھانے کو لے لیں۔ اندر داخل ہوا، بران بریڈ نہ ملی، باہر نکلتے ہوئے دروازے پر ایک آدمی ملا، اُس سے پوچھا میاں یہ سامنے کھنڈر کس کا ہے، بولا، یہاں کافروں کا ایک قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔ مَیں نے کہا آپ کو کیسے پتا یہ وہی ہے، کہنے لگا میرے باپ دادا یہیں کے ہیں اور مجھے یہاں تیس سال ہو گئے ہیں۔ یہ پچھلی آبادی میں ہمارا گھر ہے اور یہیں سے پتھر اٹھا کر لے گئےتھے۔ اس کے ساتھ ہی اُن باغوں سے پرے (اُس کا اشارہ مغرب کی طرف کے باغوں کا تھا) بنو نضیر کا قبیلہ تھا۔
بنی قریظہ کا معاملہ بہت بحث طلب ہے۔ مختصر عرض ہے کہ معاشی طور پر اِن یہودی قبائل نے اہلِ مدینہ کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا تھا۔ اہلِ مدینہ کی تمام زمینیں اور باغ اُن کے ہاں رہن پڑے تھے اور یہ رہن سود در سود بڑھتا رہا تھا۔ مختصر یہ کہ کام اہلِ مدینہ کرتے تھے اور کھاتے یہودی تھے اور اپنے قلعوں میں عیش سے رہتے تھے۔ رسولِ کے مدینہ آنے کے بعد اُنھوں نے سب سے پہلے اہلِ مدینہ کو یہودیوں کے شکنجے سے نجات دینے کے لیے اول سود کو حرام قرار دے دیا، دوئم اُنھیں قرض لینے سے منع کر دیا، سوئم زمینیں رہن دینے سے روک دیا۔
چہارم قناعت اختیار کرتے ہوئے اُنھیں اپنی آزادانہ کھیتی باڑی کرنے پر لگا دیا۔ پنجم بدر اور دوسری جنگوں سے غنائم جو حاصل ہوئے تھے اُن سے یہودیوں کا قرض اُتار کر رہن رکھی گئی زمینیں چھڑائیں۔ اِن تمام اقدامات سے یہ ہوا کہ یہودیوں کی معیشت سُکڑنے لگی اور اُنھیں محسوس ہوا کہ وہ زیادہ دن نہیں چل پائیں گے۔ اُن کے رسولِ خدا کے ساتھ شروع شروع میں کیے گئے معاہدے اپنے اوپر بھاری پڑنے لگے۔ لہذا اُنھوں نے اہلِ مکہ کے ساتھ ساز باز کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی معاونت عبداللہ بن اُبی بھی کر رہے تھے۔
مسلمانوں کی جنگِ اُحد میں عارضی شکست نے یہودیوں کو اِس سلسلے میں زیادہ دلیر بنا دیا اور وہ کھل کر عہد شکنی پر اُترنے لگے۔ جس کے سبب پہلے دو قبائل بنو نضیر اور بنو قینقاع کو مدینہ سے نکالنا پڑا۔ اب جنگِ خندق ایک بھاری جنگ تھی جس میں مسلمانوں کا وجود ختم ہونے کا ڈر تھا اور یہ ڈر صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ پورے مدینہ ہی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ آپ اندازہ کیجیے مدینہ کی کل آبادی اُس وقت ڈیڑھ سے دو ہزار تھی۔ اُدھر سر پر دس ہزار کی تعداد کا ایسا بے رحم لشکر کھڑا تھا جس کے دل میں خون کی ہولی کھیلنے اور کلیجے چبانے کا تجربہ تھا اور پورا عرب جمع تھا۔
ایسے میں بیس دن تک خندق کی کھدائی، فاقہ بسری، کسمپرسی اور شکست خوردگی میں مبتلا ساتھیوں کو جمع کیے رکھنا اور اُنھیں حوصلہ دیے رکھنا کتنی جان جوکھم کا کام تھا۔ جبکہ اکثریت اِس خندق کے کام کو ہی ایک بے معنی مشق سمجھ رہی تھی اور خود بنو قریظہ اِس کام پر ہنس رہے تھے۔ ایسے میں اچانک بنو قریظہ کی عہد شکنی سامنے آ گئی۔ اب رسولِ خدا کو دو محاذوں کو سنبھالنا پڑا۔ بار بار بنو قریظہ کی طرف لوگوں کو بھیجتے رہے اور اُنھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر بنو قریظہ کو کفار کی طرف سے یقین تھا کہ اب وہ محمد رسول اللہ کاخاتمہ کیے بغیر نہیں جائیں گے۔
اصل میں قریظہ کی طرف سے دوخطرے تھے۔ ایک تو اُن کا قلعہ ایسی جگہ تھا جہاں خندق نہیں تھی مگر لشکرکے گزرنے کا راستہ تھا۔ لیکن باغوں کے سبب وہاں سے گزر نہیں رہے تھے۔ دوئم خود مسلمان خندق پر محافظ ہوئے کھڑے تھے جبکہ عورتیں اور بچے، جن کی تعداد مشکل سے ایک سے دو ہزار تھی اُن پر اندر سے حملے کا ڈر پیدا ہوگیا۔ اب رسولِ خدا نے چند صحابیوں کو ایک ٹاسک دیا کہ وہ یہودیوں کا ہمدرد بن کر جائیں اور مسلمانوں کے خلاف باتیں کریں اور اُن کو قائل کریں کہ جب تک قریش اُن کے پاس اپنے بندے گروی نہ رکھ دیں تب تک وہ مدینہ کی عورتوں پر حملہ نہیں کریں گے، کیونکہ اگر قریش نے کام ادھورا چھوڑ دیا تو اُن کی شامت آ جائے گی۔
چنانچہ یہودیوں نے قریش سے یہ مطالبہ کر دیا اور قریش نے اس مطالبے کو اپنی توہین سمجھا لہذا اُن دونوں کے درمیان معاہدہ نہ ہو پایا البتہ مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے یہودیوں نے اپنے پانچ سو آدمی جو غالباً اُن کے کل مردوں کی تعداد تھی اسلحہ سے لیس کرکے مدینہ کی طرف بھیج دی۔ اب رسولِ خدا کو بھی اپنے سپاہیوں کو خندق سے کم کرکے، جو کہ پہلے ہی بہت کم تھے، دو سو سپاہی مدینہ میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت میں لگا دیے۔ بس یہ سمجھیے کہ اِن بیس پچیس دنوں میں رسولِ خدا ایک طرف یہودیوں سے اعصاب کی جنگ لڑ رہے تھے اور دوسری طرف قریش سے لڑ رہے تھے اور تیسری طرف اپنے ہی درمیان اپنے صحابیوں کو حوصلہ دینے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ خیر باقی جو کچھ ہوا اُس پر بھی بات کریں گے، پہلے اپنے سفر کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔
اِس جگہ کے بالکل مشرق میں چھ کلومیٹر کے فاصلے پر اُحد ہے۔ جب آپ مدینہ کا پرانا نقشہ اٹھائیں گے تو آپ کو بنو قریظہ عین ایک درہ نما جگہ پر ایک پہاڑی ٹیلے جیسی بلندی پر دیکھیں گے۔ اِس مقام سے عین مغرب کی طر ف مسجد قبا ہے اور صرف تین کلومیٹر پر ہے۔ چنانچہ مَیں وہیں سے پیدل چلتا ہوا ہائی وے کے کنارے کنارے ہو لیا۔ ہائی وے کے دونوں اطراف نخلستان تھے۔ بعید نہیں ہائی وے اِنھی نخلستان کو کاٹ کر بنائی گئی ہو۔
میرا دعویٰ ہے تین چیزوں نے دنیا کو بدصورت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک پہاڑوں کو بلاسٹ کرنے والا بارود، دوئم پلاسٹک اور تیسرا لوہا کو ویلڈنگ کرنے کی مشینیں۔ مجھے یقین تھا کہ مولا علیؑ اِنھی باغوں میں کام کرتےتھے۔ یہاں چونکہ کنوئوں کی بہتات تھی اور مولا کی معیشت کا انحصار اِنھی کنوئوں کی کھدائی اور زمینوں کی آبادکاری سے متعلق تھا تو یہاں کہاں کہاں نا اُن کے قدم لگے ہوں گے۔ اِسی راستے پر چلتے ہوئے میں پینتیس منٹ میں مسجد قبا پہنچ گیا۔
آپ سب جانتے ہیں۔ یہ مسجد مدینہ ہجرت کا پہلا پڑائو تھا اور یہاں بھی نخلستان ہی تھا۔ رسولِ خدا نے اِس جگہ پہنچ کر قیام فرمایا اور کہا جب تک علیؑ نہیں آ جائے گا، مَیں مدینہ داخل نہیں ہوں گا۔ علیؑ کے ذمہ رسولِ خدا تین اہم کام لگا کر آئے تھے۔ اول اُن کے بستر پر سونا، دوئم اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کے سپرد کرنا جن کی ہیں، سوئم خاندانِ رسالت کی خواتین اور بچوں کو مدینہ لے کر آنا۔ اگر دیکھیں تو یہ دونوں ایسے کام تھے جو علیؑ کی جوانمردی اور عقل و شعور کا پہلا امتحان تھا۔ پہلے دونوں کاموں پر بات نہیں کروں گا کیونکہ اُن کے متعلق تاریخ میں دوست پڑھتے رہے ہیں۔
تیسری ذمہ داری پر بات کرتا ہوں، علیؑ کی عمر اُس وقت اکیس سال تھی۔ علیؑ نے فاطمہؑ سمیت بنی ہاشم کی خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو بیس ناقوں پر بٹھایا اور پیدل چلے۔ اُن کے ہاتھ میں پہلے اونٹ کی مہار تھی اور باقی اُس کے پیچھے قطار میں چل رہے تھے۔ جب علیؑ مکہ سے چالیس میل دور نکل آئے تو قریش کو خیال آیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ تو نکل گیا، ہم نے اُن کے مال اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو یرغمال کیوں نہیں بنا لیا؟ تاکہ محمدؑ مجبور ہو کر وآپس آئیں۔ لہذا سب نے مل کر سر جوڑے اور چالیس چوٹی کے لفنٹر چُن کر علیؑ کے پیچھے بھیجے کہ علی اور اُس کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو وآپس لائو۔ جیسے ہی یہ قریب پہنچے، گرد اُڑتی ہوئی دکھائی دی تو عورتیں اور بچے گھبرا گئے، بچوں نے رونا شروع کر دیا۔
علیؑ نے اُن سب کو حوصلہ دیا اور کہا سب خاموش ہو کر بیٹھ جائو، میرے ہوتے ہوئے کوئی فرد آپ تک پہنچ نہیں پائے گا۔ مَیں نے رسولِ خدا سے تمھیں سلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ پورا کروں گا۔ اِس کے بعد علیؑ نے اونٹ کہ مہار ایک پتھر کے ساتھ باندھی اور سب اونٹوں کو اکٹھا کرکے ایک دائرے میں بٹھا دیا۔ اتنے میں چالیس بدمعاش بھی قریب آ گئے۔ علیؑ نے اپنے پہلو سے خنجر نکالا، دس قدم آگے بڑھے اور زمین پر ایک لکیر کھینچ دی پھر پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے، جبکہ تلوار اُن کے پہلو میں لٹک رہی تھی۔ تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھا، پھر کفار سے مخاطب ہوئے۔
اے قریش کے بیٹو، مَیں رسول اللہ کے حکم پر مدینہ جا رہا ہوں اور اُن کی طرف سے مامور ہوں تاکہ اِن عورتوں اور بچوں کو سلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچائوں۔ مَیں رسول کے حکم میں کوتاہی کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ مَیں نے تمھاری امانتیں تمھارے حوالے کر دی ہیں۔ یہ ناقے ہمارے اپنے ہیں، اور اِن پر لدا سامان بھی ہمارا ہے، ہم نے تم میں سے کسی کا قرض بھی نہیں دینا۔ اِس کے بعد بھی اگر تم چاہتے ہو کہ میرے کام میں مداخلت کرو تو جسے اپنے ماں کے دودھ پر فخر ہے اور اُس کی ماں نے اُس کی لاش پر نہ رونے کی قسم کھائی ہے وہ اِس لکیر کو عبور کرے، خدا کی قسم پھر وہ اُسے واپس عبور نہیں کر پائے گا۔ اب مَیں یہاں کھڑا اُس وقت تک تمھارا انتظار کروں گا جب تک تم عبور نہیں کر لیتے یا جہاں کھڑے ہو وہیں سے اپنے گھروں کو لوٹ نہیں جاتے۔
علیؑ کے الفاظ میں اتنی جلالت اور رعب تھا کہ وہ بدمعاش ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، پھر ہر شخص دوسرے سے کہنے لگا تم آگے بڑھو کیونکہ تم ہمارے سردار ہو مگر اب وہاں کوئی سرداری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور علیؑ لکیر کی دوسری طرف کھڑا اُنھیں خموش دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بہت دیر وہیں جمے رہے، پھر عقبہ بولا اے علیؑ تم ایک معزز اور ذی وقار مرد ہو، ہم تو تم سے گزارش کرنے آئے تھے کہ تم مکہ نہ جائو اور اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ یہیں رہو۔ ہماری دشمنی تو صرف محمد بن عبداللہ ﷺ کے ساتھ ہے۔ اگر تم واپس نہیں جانا چاہتےتو ہم یہیں سے لوٹ جاتے ہیں۔ اب علی نے کہا، ٹھیک ہے تم شکرکے ساتھ اپنے سروں کو سلامت لے کر لوٹ جائو۔ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی دشمنی میری دشمنی سے الگ نہیں ہے۔
اِس کے بعد علیؑ نے اُن سے کوئی کلام نہیں کیا اور کھڑے رہے، یہاں تک کہ وہ غنڈے وہیں سے اپنے گھوڑوں کی باگیں پھیر کر مُڑے اور شکست خوردہ ہو کر مکہ آ گئے، کسی کی کی جرات نہ ہوئی کہ علیؑ کا راستہ روکے اور علی دوبارہ اونٹ کی مہار پتھر سے کھول کر مدینہ کی طرف چل پڑے۔ یہاں تک کہ قبا پہنچ گئے۔ رسولِ خدا علیؑ کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ اُن کے آنسو نکل آئے۔ علیؑ کے پائوں سے خون جاری تھی۔ رسولِ خدا خود اپنے ہاتھوں سے علیؑ کے سوجے ہوئے اور زخمی پائوں پر مرہم لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، علیؑ تُو نے تو اپنے آپ کو میری محبت میں ہلکان کر لیا، خدا تم سے اتنا راضی ہے کہ اپنی مشیت تمھیں بیچ دی ہے۔
رسولِ خدا علیؑ کے آنے کے بعد تین دن مزید وہیں رُکے رہے اور جب اُن کے پائوں کے زخم مندمل ہوئے تو مدینہ داخل ہونے کے لیے چل پڑے۔
تو جناب بھائی لوگو یہی قبا ہے اگر تم یاد رکھ سکو کہ یہاں رسولِ خدا ﷺ نے علیؑ کے پائوں کے زخموں کو دھویا تھا اور اپنے ہاتھ سے مرہم لگائی تھی اور علیؑ کا انتظار کیا تھا۔ یہ وہی مسجد قبا ہے جسے علی والوں کی مسجد کہنا زیادہ مناسب ہے۔ جب یہاں آیا کرو تو اِس واقعے کو یاد رکھ کر اِس کی زیارت کیا کرو۔ مَیں تو یہاں بیٹھ کر علیؑ کی اُن راہوں کو دیکھتا رہا جنھوں نے علی کو قبا تک پہنچایا۔