Babylon Urf Babul
بابلون عرف بابل
کوفہ سے پچاس کلومیٹر ذوالکفل سے آگے حلہ میں یہ شہر موجود ہے۔ یہ وہی شہر ہے جسے میسوپوٹیمیا کہہ کر کتابوں میں مشکل پسندی کو رواج دیا گیا ہے۔ اِس شہر کی مٹی فرات کے پانیوں سے گندھی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پیغمبروں نے یکے بعد دیگرے ظہور کیا۔ ذوالکفل، خضر علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور دوسرے کئی ہزار پیغمبر اسی سر زمین مین پیدا ہوئے۔ حتٰی کہ نوح اور ابراہیم بھی اِسی زمین کے باسی ہیں۔ جب مَیں حلہ سے یہاں پہنچا تھا تو معلوم نہیں تھا اِسے دیکھنے کے لیے ایک خطیر رقم کا ٹکٹ لینا پڑے گا۔ ہوا یہ کہ جیسے ہی پہنچے ایک چوکیدار نے ہمیں روک لیا۔ بولا، برطانیہ سے آئے ہو یا امریکہ سے۔ مَیں نے کہا میاں اتنے بڑے بڑے ملکوں کے نام نہ لو، ہم تو اُن کے غلاموں میں سے ہیں یعنی غلام ملک میں سے، وہ حیران ہوا مگر جب ہم نے اپنا پاسپورت اسے دکھایا تو اُسے یقین آ گیا۔ کہنے لگا اچھا چلو خیر آپ نے ہماری ایک بڑی رقم ضائع کر دی ہے۔ پوچھا وہ کیسے، بولا اُن لوگوں سے ہم پان سو ڈالرٹکٹ لیتے ہیں۔
اور ہم سے کیا لو گے؟ مَیں نے کوش ہو کر پوچھا، آپ سے صرف پچاس ہزار عراقی دینار، اُس نے نہایت متانت سے جواب دیا۔ ہائیں، ہماری آنکھیں کھلی رہ گئیں، یعنی پاکستانی کم و بیش آٹھ ہزار۔ ہماری دیدہ، حیرانی کو دیکھ کر بولا بھئی آخر امیر ملکوں کے غلام ہواتنے تو ہم بھی دے ہی سکتے ہو۔ ہم نے کہا بھیا ذرہ یہ تو بتاو اگر ہم عراقی ہوتے تو؟ بولا فقط ایک ہزار دینار یعنی پاکستانی ڈیڑھ سو روپیہ۔ ہم نے کہا اتنا گھپلہ کیوں؟ بولا بھئی عراقی تو اپنا ہی قدیمی گھر دیکھنے آئیں گے۔
ہم نے کہا بھئی دیکھو ہم زائر بھی ہیں اتنا ظلم نہ کرو، ٹکٹ والا بولا میاں نجف اور کربلا جانے کے ہم پیسے نہیں لیتے، وہاں تو ااپ کو کھانا بھی کھلائیں گے، نہلائین گے پاؤں دابیں گے مگر یہاں دینا ہی پڑیں گے۔ لیجیے حضت ناچار بابل کو دیکھنے کے پچاس ہزار عراقی دینار یعنی پاکستانی کم و بیش آٹھ ہزار اور ٹیکسی کا کرایہ ملایا جائے تو تیس ہزار کا چکر ہے۔ مَیں نے چونکہ ٹیکسی کے پیسے ایک طرف کے پیدل چلنے کی وجہ سے بچا لیے تھے چنانچہ مجھے یہ عجائب خانہ دیکھنے میں بیس ہزارخرچ کرنے پڑے۔ یہ بھی خیر ہی ہوئی ورنہ تو ہاروت و ماروت وہان جانے کی سزا بھی ابھی تک کنویں میں لٹکے پڑے ہیں۔ اُس کنویں کے اوپر لوہے کے موٹے سریوں کا جال ابھی تک پڑا ہے بچارے قیات تک باہر نہ آ پائیں گے۔
بابل کا شہر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا اور اب دریا تو کچھ فاصلے پر چلا گیا ہے البتہ اِس کے دائیں بائیں طرف سے دو نہریں چلتی ہیں۔ یہیں مولا علیؑ کی خارجیوں کے ساتھ وہ جنگ ہوئی تھی جسے جنگِ نہروان کہتے ہیں۔ اِسی جنگ میں مولا علی علیہ السلام کے ایک بیٹے عمران بن علی شہید ہوئے جن کا روضہ بابل کے ایک ٹیلے پر نہر کے پاس موجود ہے۔ اُسی روضے کے صحن میں دو قبریں اور بھی نہروان کے شہیدوں کی ہیں۔ اسے نہروان دو نہروں ہی کی وجہ سے بیان کیا جاتا ہے۔ روضے کے صحن میں ایک کنویں کے نشانات اور بیری کا ایک درخت بھی موجود ہے۔ کچھ کھجوریں بھی یہاں ہیں۔ بابل میں اب ریت کی آندھیاں بہت چلتی ہیں اور ہوا بہت تیز اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ سے آدمی گویا ریت میں نہا جاتا ہے مَیں خود ریت سے نہا گیا تھا۔
بابل کے کھنڈرات دس مربعہ میل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی وہ شہر ہے جسے حمورابی کا پایہ تخت کہا جاتا تھا۔ یہیں حمورابی کے قوانین کی تختیاں برآمد ہوئیں۔ مَیں جب اِن کھنڈرات میں پہنچا تو حیران ہوا کہ اُن کے مکانوں کی دیواریں پندرہ پندرہ فٹ چوڑی گویا اینٹوں کے پہاڑ باندھ کر بنائی گئی تھیں۔ یہ اینٹیں ایک فٹ چوڑی اور ایک فٹ لمبی تھیں۔ اور نہایت بھورے رنگ کی پکی ہوئی اینٹیں ہیں۔ کھنڈرات جنھیں کالے رنگ کے کسی سیال مادے سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اصل میں یہ شہر کا قلعہ تھا جس میں بادشاہ اور خواص رہتے تھے۔ اِس کا رقبہ کم و بیش ایک مربع میل تھا۔ قلعے سے باہر شہر کے چوک میں دیو قامت شیر سیاہ پتھر سے ترشا ہوا موجود تھا۔ یہ شیر اپنے دونوں پاوں کے نیچے ایک عورت کو لٹائے ہوئےگویا اُس کے اوپر چڑھا تھا۔ شیر کا آدھا منہ ٹوٹ چکا تھا۔ اتنا برا سیاہ پتھر اللہ جانے اُنھوں نے کہاں سے ڈھونڈا تھا کہ آس پاس کسی پہاڑ کا نشان نہیں تھا۔ اِس قلعے کے باہر شہر تھا جو ایک طرف سے موجودہ حلہ اور دوسری طرف سے نہر تک جاتا تھا یعنی کم از کم اوکاڑہ شہر کے برابر ضرور تھا۔
قلعے سامنے نابھو دیوتا اور شطاری دیوی کے معبد ہیں۔ انھی میں خاص بادشاہ کی عبادت کے لیے بھی ایک معبد موجود تھا۔ اِن معبدوں کی شکلیں بھول بھلیوں کی طرح ہیں۔ پورے شہر میں کسی قسم کی ڈاٹ کا استعمال نہیں ہے۔ فقط دروازوں میں ایک نوے درجے کی ڈاٹ استعمال کی گئی ہے۔ کھنڈرات میں تمام چیزیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ بادشاہ سمیت تمام شہر فقط زراعت سے دلچسپی رکھتا تھا اور یہی اُن کا ذریعہ روزگار تھا۔ جنگ وغیرہ کے نشانات ناپید ہیں۔ یہاں کی کجھوریں بہت لمبی اور میٹھی ہیں۔ نخلستان بہت زیادہ ہیں۔ لیکن جس جگہ کھنڈرات ہیں وہاں کجھوریں نہیں ہیں اور آندھیاں ہیں کہ چلی جاتی ہیں اور سر میں خاک ڈالتی جاتی ہیں۔ یہیں وہ جگہ تھی جہاں باغِ معلقات تھے۔ باغِ معلقات کی جگہ اب ایک اونچا ٹیلا ہے، معلقات کے کھنڈر کے مغرب کی طرف فرات کی نہر بہتی ہے۔ یہ نہر ابھی بھی بہہ رہی ہے۔
باغِ معلقات کے کھنڈرات کی جگہ صدام نے اپنا محل بنا لیا تھا جو اب بھی موجود ہے مگر اُسے سرکاری دفتر بنا دیا گیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا لشکر جب یہاں سے گزرا تو آپ نے اپنی فوج کو ایک خطبہ دیا اور فرمایا یہاں سے جلدی گزر جاو اور دیکھتے جاو کہ کس طرح ظالموں کو وقت کی تختی پرعبرت کی زبان نے کہانی لکھی ہے۔ اِن کی ہڈیاں آج تمھارے گھوڑوں کے تلووں سے چٹخ رہی ہیں۔ اگر تم نے بھی اِنھی کے نقشِ پا کی اطاعت کی تو کل تمھاری کہانی اِنھی کے صفحات میں درج ہو گی۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ مولا علی ؑکے الفاظ کیسے سچ ہوئے ہیں جنھوں نے مولا کے الفاظ سے عبرت لی اور عدل کے تابع ہو گئے اُن کی مرقدیں آج سجدوں کے نشان سے روشن ہیں اور جو حکمرانوں کے ظلم میں شریک رہے اُن کی ہڈیوں پر وقت نے گمنامی اور ذلت کے ھوڑے دورا دیے ہیں اُن کی مرقدیں تو سلامت نہیں رہیں ہاں وہاں کتوں اور سوئروں نے یا تو اپنے گھورے بنا لیے یا سیم زدہ کنکروں نشان صاف کر دیے۔
اِن فسانوں کو جانچنے کے بعد مَیں نے معبدوں کو اندر جا کر دیکھنے کی خواہش کی تو چوکیدار نے پھر ٹوکا، کہا وہاں نہیں جا سکتے، اُنھیں لیپا پوتا جا رہا ہے۔ ہم نے کہا ایسے کیسے ہو سکتا ہے ہم اتنا زیادہ پیسہ دے کر آئے ہیں۔ یہ گھپلا نہیں چلے گا۔ وہ بولا میاں دماغ نہ کھاو اور اپنا رستہ ناپو۔ آخر ہمیں ایک ترکیب سوجھی، ہم نے کہا بھیا ذری اپنا موبال نکالنا، اُس نے کہا اُسے کیا کرو گے۔ ہم نے کہا نکالو تو۔ یار اتنا کہا تو مان لو۔ اُس نے موبائل نکال لیا۔ اب ہم نے پوچھ آپ کے پاس نیٹ ہے، بولا، ہاں ہے۔ ہم نے بولا ذرا گوگل پر علی اکبر ناطق لکھیو۔ اُس نے جونہی یہ نام لکھا، ہمارے کئی فوٹو چمک چمک کر اس کے سامنے آ گئے، پوئٹ، راٹر، سٹوری ٹیلر، ناولسٹ۔ اب وہ کبھی ہمارا منہ تکتا اور کبھی موبائل کا۔ بولا آپ مورخ اور شاعر ہیں؟ بولے جی ہاں، یہی تو بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم یہاں کے نہ سہی اپنے ملک کے تو ایک معزز شہری ہیں۔ اُس نے اپنے کہ مکمل تعظیم اختیار کی۔ بولا جایے، اور جی بھر کے دیکھ آیے۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ صاحبِ ایمان ہو گے کاہے کو شرک کے اڈے پر جاو ہو مگر آپ تو اُنھی میں سے نکلے ہو۔
ارے باپ رہے۔ خیر عراقی بہت جولی قسم کے لوگ ہیں۔ لہذا اب کے ہم معبدوں میں داخل ہو گئے۔ اندر اندھیر ہی اندھیر تھا۔ کجھور کے تنوں کے شہتیروں پر کھجور ہی کے پتوں کی چھتیں تھیں جو بعد میں ڈالی گئی تھیں۔ یوں سمجھیے ہمارے دیہاتوں کے کچے کوٹھے ہی تھے۔ جن میں کنواری لڑکیاں رہتی تھیں اور اپنے وقت کے پجاریوں دیوتاوں کی عبادت میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ اب نہ وہاں پجاری تھے، نہ کنواری پجارنیں تھیں، نہ قربان گاہوں پر چڑھانے کے لیے کنواری لڑکیاں تھیں اور نہ خود دیوتا تھے، فقط کوٹھے تھے۔ اُنھیں کتنی دیر تک دیکھتا، نابھو دیوتا عقل کا دیوتا تصور ہوتا تھا، وہ ہمارے پاس پہلے ہی فالتو تھی کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ چنانچہ وہاں سے بستر باندھا اور سیدھا دو کلو میٹر نہر کے کنارے موجود عمران بن علی علیہ السلام کے روضے پر آ گیا۔
یہاں وضو کیا، ظہرین کی نماز پڑھی ، زیارت کے دو نفل پڑھے، صحن میں موجود کنویں اور بیری کے پاس بیٹھ کر وقت کے پہیے کو چودہ سو سال پیچھے گردش دی جہاں جنگ نہروان ہو رہی تھی۔ اُس میں گمراہ خوارج کی ذلت آمیز شکست کو دیکھا، دل ہی دل میں مولا علی ؑاور اُن کے سچے صحاب پر درود پڑھا اور شہرِ نمرود کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان بتوں کے معاملے پر اَن بَن ہو گئی تھی۔