Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Ustad Se Sadar Banne Ki Dastan

Ustad Se Sadar Banne Ki Dastan

استاد سے صدر بننے کی داستان

یہ آپ بیتی ے امریکہ کے 44ویں صدر باراک حسین اوباما کی جو سیاہ فام ہوتے ہوئے امریکہ کے سربراہ مملکت بنے۔ ایسی سرزمین جہاں چند دھائیوں پہلے سیاہ فام کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، جہاں انسانی تاریخ کی بدترین غلامی عروج پر تھی، جہاں 1963 سے پہلے سیاہ فام کمیونٹی کو ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں تھا وہاں افریقن امریکن شہری کا امریکہ کا صدر منتخب ہونا حقیقی معنوں میں انقلاب ہے۔ یہ حق محض کہنے سے نہیں ملا بلکہ اس سے پیچھے عظیم جدوجہد، ہزاروں قربانیاں اور شعوری ارتقاء کی بےمثال تحریکیں موجود ہیں۔

ابراھم لنکن وہ پہلے امریکی لیڈر تھے جنہوں نے صدر منتخب ہوتے ہی 1864 میں صدارتی فرمان کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا دستوری قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں بالآخر انہیں اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔ ان کو راستے سے ہٹانے والے وہی عناصر تھے جنہیں غلامی کے خاتمے سے دھچکا لگا تھا۔ یہاں سیاہ فاموں کے عظیم لیڈر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر چمکتے سورج کی طرح تاریخ کے سنہری اوراق میں جگمگا تےرہے ہیں۔ ان کی مشہور زمانہ تقریر I have a dream ٫٫میرا ایک خواب ہے۔

جو 1963 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ابراھم لنکن میموریل کے سامنے کی گئی جس کو سننے کیلئے دس لاکھ امریکی جمع ھوئے، امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنے دفتر میں بیھٹے یہ تقریر سن رہے تھے۔ اس نے پورے امریکہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے امریکی قوم کو مخاطب ھوکر فرمایا:-

"میرا خواب ہے کہ ایک روز میرے بچے ایک ایسے امریکہ میں رہیں گے جہاں انہیں اپنی جلد(Skin) کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے کردار کی بنیاد پر پرکھا جائے گا"۔ بالآخر یہ قربانیاں رنگ لائیں اور سیاہ فام کمیونٹی کو وہ مساوی حقوق ملے جو الحمدللہ اسلام نسل انسانی کو چودہ سو سال پہلے ھی خطبہ حجتہ الوداع کی صورت میں دے چکا ہے۔

مسٹر باراک اوباما کے والد اوباما سینئر کا تعلق کینیا سے تھا جو مسلم PhDاسکالر تھے۔ ان کی والدہ خالص امریکی تہیں جو انتہائی پڑھی لکھی خاتون تہیں۔ مسڑ اوباما اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ اپنی ماں کو دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مجھے خود کو دریافت کرنے میں میری ماں نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ انہی کی گائیڈنس سے میں نے Law کا کیرئیر جوائن کیا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں سیاہ فام کمیونٹی کا فرد ھونے کے ناطے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ خود سفید فام شدت پسندوں کے جسمانی اور نفسیاتی حملوں کا شکار ہوئے۔ اسی احساس محرومی کے خلاف big picture میں حقوق کی لڑائی لڑنے کیلئے انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کہانی شکاگو لاء کالج سے شروع ہوئی جس میں ایک دن انہوں نے اپنے کولیگ نفسیات کے استاد کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے امریکہ کا صدر بننے کا شعوری فیصلہ کرلیا ھے۔ ان کے دوست نے پوچھا کہ مجھے اپنی کوئی دو تین خوبیاں بتاؤ جس کی وجہ سے تمھارے اندر امریکہ کا صدر بننے کا یقین پیدا ھوا۔ مسٹر اوباما مخاطب ہوئے:-

(1) میں نے آج تک کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔

(2) میں جو فیصلہ کرلو پھر اس میں وقفہ نہیں آنے دیتا۔

(3) میں بدترین حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتا ہوں۔

(4) میں انسانوں کی نفسیات سمجھتا ھوں۔

(5) میرا ماننا ہے کہ شعوری ارتقاء میں طاقت ھوتی ھے جو Status quo یعنی Dark forces کی دیواروں میں سوراخ کرسکتی ہے۔

(6) مجھے تنقید کے تیر حق کے راستے سے ہٹا نہیں سکتے کیونکہ میں ہمیشہ حق گو رہا ہوں۔

یہ آپ بیتی بنیادی طور پر Zero سے Hero کی چیلنجز بھری داستان ھے۔ یہ دنیا کے ان تمام انسانوں کیلئے سبق ھے جو خود کو بدل کر زمانے کو بدلنا چاھتے ہیں۔ یہ پیغام ھے تیسری دنیا کے نوجوانوں کیلئے کہ وہ اگر خود کو ڈسکور کرلیں تو وہ دنیا میں اعلٰی سے اعلی مقام بھی پاسکتے ہیں۔ مسٹر باراک حسین اوباما امریکی معاشرے اور سیاست میں پائی جانے والی خامیوں پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

انہوں نے خاندانی نظام کے کمزور ہونے کو امریکہ کے مستقبل کیلئے زہر قاتل قرار دیا ہے۔ وہ خاندان کو صحت مند معاشرے کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ امریکی سیاست دانوں اور امریکی عوام کے درمیان پائے جانے والی وسیع خلیج کا بھی اعتراف کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی اکثریت جنگوں کے خلاف ہے۔ صدر بش نے عراق پر جنگ مسلط کرکے خوفناک غلطی کی تھی۔ جس کا خمیازہ عراقی عوام، امریکی فوجیوں کی لاشوں اور بدامنی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

وہ انصاف پر مبنی گورننس RULE OF LAW، شعوری ارتقاء، اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کو معاشروں کی روح قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر امریکی سیاستدانوں نے عوامی فلاح کو ترجیح نمبر 1 نہ بنایا تو جلد ہی ہم اپنے ملک کے اندر بےترتیبی، بےروزگاری اور عدم استحکام دیکہیں گے۔ وہ حقیقی جمہوری روایات کے خواں ہیں، ڈکٹیٹرشپ کو کینسر سمجھتے ہیں۔

وہ چاھتے ہیں کہ امریکہ پہلے کی طرح dream land بنے جس میں پوری دنیا سے آنے والوں کو warm welcome کیا جائے۔ وہ انٹرپرینورشپ کو ترقی کی روح قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ہمیں امن کیلئے فوجی طاقت سے آگے کا سوچنا ہوگا۔ نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو لیڈر مانتے ہیں۔ ان کا مشہور قول ہے کہ اللہ پاک نے کائنات میں سب سے قیمتی خزانے انسانی دماغ human mind میں رکھے ہیں۔

Check Also

Gilgit Baltistan Mein Siyasi o Samaji Aloodgiyan

By Amirjan Haqqani