Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. The Game Is Over

The Game Is Over

گیم از اوور

اللہ پاک اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ رب تعالٰی نے اس کائنات میں جینے کیلئے کچھ قوانین بنائے ہیں جنہیں " آفاقی اصول"کہا جاتا ہے۔ ان اصولوں کی پہحان قدرت نے حضرت انبیاء کرام علیہ السلام بالخصوص اپنے پیارے محبوب حضرت محمد ﷺ کے ذریعے عملی طور پر کروائی ہے۔ آپ کا دنیا میں کوئی بھی اہم رول ہے، جامع رہنمائی مل جائے گی۔ مصافحہ کرنے سے لےکر عبادت کرنے تک، گھر چلانے سے حکمرانی کرنے تک کا مثالی ایکشن پلان موجود ہے۔

ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں انسان جو بوتا ہے وہی اسے کاٹنا پڑتا ہے۔ اسی حکم ربی کے زیر اثر آکر کچھ قومیں دنیا کو لیڈ کرتی ہیں اور کچھ زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب بھی کوئی فرد، قوم اور ملک اپنی بےاصول طاقت کے زور پر دوسرے انسانوں، قوموں اور ملکوں کو حقیر سمجھ کر کچلنے کی کوشش کرتا ہے، قدرت کا آفاقی نظام اس بے اصول کے خلاف حرکت میں آجاتا ہے۔ نتیجے کے طور میں وہ عناصر زمانے کیلئے عبرت بن جاتے ہیں۔

رومن امپائر سے لےکر پرشئین کنگڈم تک، برطانیہ سے لےکر USSR تک اسی قانون کی خلاف ورزی کے نتیجے میں اپنا وجود کھوچکے ہیں۔ وطن عزیز کو بنے ہوئے سات دھائیاں بیت چکی ہیں۔ یہ ملک جس بڑے کاز (Cause) کیلئے بنا تھا وہ ابھی تک execute نہیں ہوسکا۔ اپنی بنیادوں پر سمجھوتہ کرتے کرتے آج عالمی منظرنامے میں ہماریworth محض سہولت کار، قر ض زدہ اور موقع پرست کی ہے۔

مڈل ایسٹ سےلےکر امریکہ تک ہمیں ٹشو پیپر سے زیادہ وقعت نہیں ملتی، جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ چائنہ جیسا دوست ملک بھی ہماری طرز حکمرانی کے نتیجے میں عالمی لیول پر ہمیں پروٹیکٹ کرتا کرتا تھک چکا ہے۔ کبھی وہ ہمیں FATF میں گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے لابنگ کرتا ہے تو کبھی کشمیر ایشو کو سیکورٹی کونسل میں بنیادی انسانی حقوق کا عالمی بحران پر مضبوط موقف اپناتا ہے جس کے بطور قوم ہم مشکور ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم بطور قوم یہ طرز زندگی اپنائے رکہیں گے۔ آج دنیا ہمیں کرپٹ، منی لانڈرر، نااھل، پسماندہ اور شعوری غریب سمجھتی ہے۔ آخر ہم کب تک حقیقت سے بھاگتے رہیں گے، کب تک مانگے تانگے کا جینا جیتے رہیں گے۔ دنیا میں طرزحکمرانی کے کئی فارمیٹ استعمال کرکے قوموں نے ترقی کی۔ مارشل لاز بھی لگے، بادشاھت بھی رہی، جمہوریت کا علم بھی بلند رہا لیکن انہوں نے قومی وقار اور ملکی خودمختاری کو نمبر ون رکھا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی مارشل لاز سے لے کر خاندانی آمریت رھی، پارلیمانی نظام سے لےکر صدارتی نظام حکومت کے تجربات ہوئے لیکن عوام اور ملکی خودمختاری کا دامن خوشحالی سے بھرنے کی بجائے کرپشن اور بیڈگورننس کے ھاتہؤں چاک چاک رہا۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے رویوں میں "دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنے اور شارٹ کٹ" والی اپروچ ہے۔

موجودہ منظرنامے میں تبدیلی سرکار پر Survival کا خوف مسلط ہے۔ حلیف اجنبیت کا روپ دھار کر حریف بن چکے ہیں۔ عوام کی توقعات مایوسی کا روپ دھار چکی ہیں۔ آج کا حکمران بےاصول اتحادیوں کے نرغے میں گر چکا ہے۔ لیڈرشپ کی نیندیں کب کی آڑ چکی ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ ایسا ہمارے ساتھ بھی ہوسگتا ہے۔ مخالفین آہستہ آہستہ صفیں درست کررہے ہیں۔ شیروانیاں سلوائی جارہی ہیں۔

افسوس صد افسوس کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ ہر کوئی بےاصولی کے ٹریک پر چل کر اقتدار کی مسند چاہتا ہے۔ عبرت سے عبرت نہ لےکر خوفناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک ہی انداز سے چل کر مختلف منزل کا تصور ہمیں آدھ موا کردے گا۔ بازی پلٹ چکی ہے، میدان سجایا جارہا ہے۔ پرانے کھلاڑی نئے نعروں اور نئے پوسچر کے ساتھ جلوہ گر ہؤئے چاھتے ہیں۔ Mid کا رزلٹ آچکا ہے۔ سارے پتے show ہوچکے ہیں۔ کھیل ختم ہوچکا ہے۔

Check Also

Pakistan Ke Door Maar Missile Programme Se Khatra Kis Ko Hai

By Nusrat Javed