Tabdeeli Shaoori Qurbani Mangti Hai
تبدیلی شعوری قربانی مانگتی ھے
مشہور حکایت ھے کہ ایک نوجوان کو اپنی پیٹھ پر شیر کی تصویر (گرم سلاخوں سے) بنوانے کا بڑا شوق تھا تاکہ معاشرے میں اُس کی بہادری کا ڈنکا بجے۔ اُس نے ملک کے مشہور آرٹسٹ سے رابطہ کیا جس نے بڑی مشکل سے حامی بھرلی۔ پوچھا گیا کہ پہلے شیر کا کونسا عضو بناؤ؟ جواب آیا شیر کا منہ بناؤ۔ گرم سلاخ جیسے ھی جسم پر لگی تو نوجوان درد سے چیختے ھوئے بولا" آپ مہربانی فرما کر شیر کے منہ کی بجائے ٹانگیں پہلے بنا دیں، جیسے ھی ٹانگیں بنانے کا عمل شروع ھوا نوجوان کا وہی ردعمل تھا کہ پہلے دم بنا دو۔ آرٹسٹ نے نوجوان کی حالت پر ترس کھاتے ھوئے ازراہ ھمدردی فرمایا:"بیٹا جاؤ اور جاکر کوئی اور کام کرو، شیر بنوانے کیلئے درد سہنا پڑتا ھے جو آپ کے بس کی بات نہیں "۔
میں نے جب سے یہ حکایت پڑھی ھے مجھے پاکستان کے عوام اور اُس نوجوان میں بڑی حد تک مماثلت نظر آرھی ھے۔ پاکستان کی عوام کو بھی تبدیلی کی شدید خواھش ھے جو کہ اُن کا حق ھے کہ وہ باوقار انداز میں زندگی گزاریں لیکن تبدیلی کیلئے relevant mechanism جیسے ھی process میں آتا ھےوہ اُس نوجوان کی طرح چیخ و پکار کرنے لگتے ھیں کہ جناب آپ ناجائز تجاوزات کو گرانے کا کام بعد میں کیجئے گا، پہلے آپ کرپشن ختم کریں۔ کرپشن کے خلاف جیسے ھی move ھوتی ھے پورے ملک میں دھرنے کرکے لاک ڈاؤن کی دھمکیاں ملنے لگتی ھیں کہ اگر آپ نے فلاں فلاں مجرم کو نہ چھوڑا تو ھم سسٹم بریک کردیں گے۔ جیسے ھی Tax-reforms شروع ھوتی ھیں، نان ٹیکس فائلر، اثاثے ڈیکلیر نہ کرنے والوں اور بالخصوص تاجر برادری میں ہاہا کار مچ جاتی ھے کہ ھم پر ظلم ھورھا ھے اگر آپ نے ھماری ڈیمانڈ پوری نہ کیں تو ھم اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کردیں گے، اسی طرح Health' Education' بیوروکریٹک، جیوڈیشری، میڈیا اور پولیس ریفارمز کا عمل شروع ھوتا ھےتو disinformation پھیلا کر پورے ملک میں خوف پھیلایا جاتا ھے کہ جناب پرانا پاکستان ھی ٹھیک تھا۔
قوم کو پہلے divide & rule اور اب divert & rule کے ذریعے شعوری پسماندہ رکھ کر ھجوم میں بدل کر بے سمت directionless کردیا گیا۔ تاریخ گواہ ھے کہ بےسمت ہجوم عالمی کھلاڑیوں کے ھاتھوں اپنے ھی وطن کے خلاف استعمال ھوجاتا ھے۔ آج کا دور جیسے ھم ڈیجیٹل اور انفارمشن ایج کہتے ھیں، اس میں شعوری پسماندگی کے شکار ھجوم کو استعمال کرکے fifth generation war کے ذریعے بغیر لڑے دشمن کو تباہ کردیا جاتا ھے۔
اب صورتحال بڑی دلچسپ اور کسی حد تک خطرناک ھوچکی ھے۔ پاکستان کے عسکری اداروں کو بخوبی احساس ھے کہ دشمن ھمارے ملک میں پروپیگنڈے کے ذریعے hybrid war کروا کر ھمیں اندر سے برباد کرنا چاھتا ھے جس کا اظہار ISPR کے معتبر پلیٹ فارم سے کئی دفعہ ھوچکا ھے۔ ان سازشوں کو counter کرنے کیلئے یونیورسل لیول کی ریفارمز انتہائی ضروری ھیں تاکہ ھمارا نوجوان مطمن اور خوشحال زندگی گزار سکے اور دشمن انھیں وطن کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔
دوسری طرف ھمارے ملک کا وہ مخصوص طبقہ ھے جو چند خاندانوں پر مشتمل ھے جس نے ستر سال سے ملک میں قانون کو اپنی باندی بنا رکھا ھے، جنہوں نے اپنی من مانی کیلئے تھانہ، پٹواری کلچر نافذ کرکے معزز شہری کو اندر سے خوفزدہ اور کھوکھلا کردیا ھے۔ یہ عناصر ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا حصہ ھیں، ان کے خاندان کے بڑے ماضی میں Unionist party کا حصہ تھے۔ یہ طبقہ چاھتا ھے کہ اداروں میں ہر ایسی ریفارمز کو روکا جائے جو ان کی من مانی میں رکاوٹ بن سکے۔ یہ وہ عناصر ھیں جنہیں نہ تو democracy کی روح کا پتہ ھے اور نہ ھی Hybrid war کا شعور ھے۔ جہاں تک عوام کی بات ھے تو انھیں تبدیلی کے حقیقی فلسفے کا اندازہ ھی نہیں ھے۔ وہ نعروں اور کسی شخصیت کے آنے کو تبدیلی سمجھتے رھے ھیں۔ حالانکہ تبدیلی evolutionary process کی شاھراہ کا نام ھے جس میں لیڈر ھجوم کو قوم بنانے کیلئے Vision دیتا ھے، انھیں educate کرتا ھے کہ تبدیلی فرد کے بدلنے سے شروع ھوگی، منفی اور پسماندہ سوچ کی جگہ یقین سے بھرپور انداز فکر اپنانا ھوگا، وہ انھیں تیار کرتا ھے کہ mafia کا مقابلہ کرنے کیلئے انھیں صبر، یقین، قربانی، مستقل مزاجی، مثبت سوچ، دوسرے کا احترام، حق اور باطل کا شعور اور حق کیلئے کھڑے ھونے کا جذبہ، گر کر پھر سے اُٹھنے کی ھمت، ایمانداری، سخت محنت، تحقیق، سیکھنے کی لگن، بانٹنے کا حوصلہ اور پوری طاقت کے ساتھ ظلم کے خلاف میدان عمل کا سپاھی بناتا ھے۔ وہ قوم کو شارٹ کٹ، دھوکے، جلدبازی اور جذباتی انداز فکر سے نکالتا ھے۔ ان خوبیوں کو اپنا کر ھی Vision کو reality میں transform کیا جاسکتا ھے۔
پاکستان تب ملائشیا، ترکی اور چین کی صف میں کھڑا ھوگا جب قوم لیڈر کو بہترین سرجن سمجھتے ھوئے surgery کرنے دے گی، جس کیلئے درد تو سہنا ھوگا کیونکہ مرض آفاقی اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی، غفلت اور بےحسی کی وجہ سے کینسر بن چکا ھے جس کیلئے سرجری اور کیموتھراپی انتہائی ضروری ھے جب کہ قوم اس کا علاج محض ڈسپرین سے چاھتی ھے جو ناممکن ھے، جس سے مریض خدانخواستہ اپنا survival کھوسکتا ھے۔
افسوس صد افسوس شاھیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ھے ازل سے
ھے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
(شاعر مشرق)