Soch Ke Sanche
سوچ کے سانچے
(1) کیونکہ میرا خاندان غریب تھا۔ میں پسماندہ علاقے سے تھا۔ میرے دوست طاقتور نہیں تھے۔ حکومتیں نااہل اور کرپٹ تھیں، مجھے فلاں نے گرا دیا، فلاں نے مدد نہ کی، حالات نے اُٹھنے نہ دیا، ٹائم نہ ملا، سازشیں ہوئیں، بیمار تھا، استاد اچھے نہ مل سکے، ماں باپ پڑھے لکھے نہ تھے، جس سے مجھے گائیڈنس نہ مل سکی اور آج میں اس حال میں جی رہا ہوں۔
(2) میں نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، دور افتادہ گاؤں ہمارا مسکن تھا۔ ملک سیاسی و معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ بےروزگاری منہ پھاڑے کھڑی تھی۔ دوست میرے بھی غریب اور سادہ تھے لیکن میں نے ان اژدہوں اور بحرانوں کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے کھڑے ہونے کا فیصلہ لیا، محرومی کو طاقت بنایا، خودترسی کی بجائے خود آگاھی کا مسافر بنا، اپنے اندر خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے ماضی سے سیکھ کر خود کو ٹرانسفارم کرکے دوسروں کو enable کرنا سیکھا اور آج الحمداللہ میں پر مسرت زندگی جی رہا ہوں۔
یہ دونوں کہانیاں بنیادی طور پر دو مختلف پیراڈائم کو کی نمائندگی کر رہی ہیں اور سو فیصد سچی ہیں اور میں اس کہانی کے کردار کو سب سے زیادہ جانتا ہوں کیونکہ دونوں میں حقیقی کردار میں میں خود ہی ہوں۔ مشہور امریکن کارپوریٹ کوچ ٹونی روبنز کہتا ہے:"we are the product of our thought pattern and decisions"
کامیاب اور ناکام شخص میں بنیادی فرق خودی کی پہچان، سمت، نیت، سوچ کے انداز، رویے، ردعمل کے فرق، پرو ایکٹو، ری ایکٹو، یقین کامل، ارادے کی پختگی، مستقل مزاجی، صبر، رواداری، دوسروں کو ملا کر چلنے، کامیاب ہوکر عاجز رہنے اور سخاوت کا ہوتا ہے۔ جب تک میں نے نہیں جانا، اپنے passion کو نہ پہچانا، کامیابی کے آفاقی راز کو نہ سمجھ پایا اس وقت تک میں outside-in کے گلاسز سے دنیا کو جانچتا رہا۔
اپنے فیصلوں کی ذمہ داری لینے کی بجائے اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا رہا۔ دوسروں سے موازنہ اور مقابلے نے میری خوشیاں چھین لیں۔ مجھے ناشکرا بنا کر مایوسی کے سمندر میں غرق کردیا۔ میں سوچتا کہ میرا فلاں کلاس فیلو اسسٹنٹ کمشنر بن گیا، لیکچرار بن گیا اور اوورسیز پاکستانی بن کر ڈالروں میں کھیل رہا ہے جبکہ میں محض گزارا کر رہا ہوں، میرے حالات کیوں نہیں بدلتے، میرا تو نصیب ہی خراب ہے۔
منفی سوچ انسان کو بدگمانی میں مبتلا کردیتی ہے جس کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، Victum mindset کا سانچہ آپ کو محدود کردیتا ہے، لاکھوں مواقع opportunities بھی آپ کو غریب رکھتے ہیں کیونکہ آپ ان کیلئے تیار نہیں ہوتے اور اپنا قیمتی اثاثہ وقت time فکسڈ پیراڈائم کی وجہ سے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی بجائے ہر وقت ماضی کے غم میں مبتلا رہتے ہیں، جس سے آپ مایوسی اور خودترسی کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتے ہیں۔ مایوس شخص کی باڈی لینگوئج احساس کمتری کا کھنڈر بنی ہوتی ہے، اسے ہر شخص اپنا دشمن دکھائی دیتا ہے۔
وہ مختلف ذہنوں کو ملاکر ٹیم بلڈنگ کی بجائے شک کی وادی میں کھو جاتا ہے۔ غصے، نفرت اور فیصلہ سازی کا بحران baseless بنا دیتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے کہ ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے، حالانکہ ہر کامیاب انسان کی زندگی بھی ناکامیوں کی دلدل پر کھڑی ہوتی ہے بس وہ آنے والے چیلنجز کو عذاب سمجھنے کی بجائے خود کو explore کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اپنے سوچ کے سانچوں پر کام کرکے اپنے اندر کے خود کو فتح کرلیتے ہیں۔ جس سے زندگی مواقعوں کی کہکشاں Galaxies of opportunities لاتی ہے۔ مثبت انسان کی دنیا ہی اور ہوتی ہے۔ مشہور پاکستانی دانشور جناب فیض حسن سیال صاحب فرماتے ہیں:"نظارہ بدلنا ہے تو نظر بدلو"
زندگی میں لگنے والے دہکے انسان کو کمفرٹ زون سے نکالنے کیلئے آتے ہیں۔ کمفرٹ زون صلاحیتوں کیلئے دلدل ہے۔ یاد رکھیں وژن جتنا بھی مثالی ہو اس کا بنیادی پتھر سوچ ہوتی ہے، سوچ سے شعوری خیال جنم لیتا ہے جو آئیڈیا کہلاتا ہے۔ جب آپ اس آئیڈیا کو process کے قانون سے گزارتے ہیں تو اس کی worth اور اپنی تیاری آپ پر عیاں ہوجاتی ہے، پھر آپ TQM کے اصول کو لاگو کرکے سابقہ پالیسی کو revisit کرکے نئے انداز سے move کرتے ہیں، initiative لیتے ہیں جس سے انجانا خوف دم توڑ دیتا ہے۔
یہ معنی نہیں رکھتا کہ لوگ کیا کہیں گے، جذبے سے بھر پور انسان مثبت تنقید کو بھی اپنی طاقت بناتا ہے، اسے بے جا تعریف و تنقید گرا نہیں سکتی کیونکہ وہ زمانے کے ٹرینڈز کو فالو کرنے کی جائے اپنے پیشن کو ڈسکور کرکے خود تبدیلی کا سفیر ہوتا ہے۔ لوگ اس سے موٹیویشن لیتے ہیں، تاریخ ایسی شخصیات کو اپنے دامن میں سمو لیتی ہے، وہ اپنے mind software کی پروگرامنگ خود کرتے ہیں۔ قدرت زمانے کا نصیب وژن والے کے ہاتھ لکھتی ہے، جو خود کو آفاقی تعلیمات کی روشنی میں فتح کرکے رول ماڈل بنتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو لیڈرشپ کا منصب عطا فرمایا ہے۔
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خود کو فتح کرکے اس منصب کو سنبھالتے ہیں یا خود ترسی کی زندگی گزار کر زمانے والوں کیلئے عبرت بنتے ہیں۔ آپ کا فیصلہ آپ کو مرد میدان بنا سکتا ہے، تو پھر اللہ پاک کا نام لےکر ہمت کیجئے اور اپنی سوچ کے سانچے کو وسعت دیجئے۔ الکیمسٹ میں Paulo Cohelo کا مرکزی نقطہ بھی یہی ہے: جب بھی کوئی شخص ایسا وژن بناتا ہے جو قدرت کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہو اور اس کے پورا ہونے کی صورت میں انسانیت کا بھلا ہوتا ہو تو قدرت کی تمام طاقتیں اس شخص کے ساتھ آکر کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔
قرآن پاک کا موضوع انسان ہے، اسلام فرد کو آگاہی کے مراحل طے کرکے رب کریم کو پہچاننے کا حکم فرماتا ہے۔ پیدائش انسان حیرتوں کا مجموعہ ہے۔ میں دو حوالے دے کر اپنے آرٹیکل کو مکمل کرنا چاہونگا:" اور انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"(قرآن حکیم)
خسارے میں ہے وہ شخص جس کا آج کا دن اس کے گزرے ہوئے دن سے بہتر نہیں (حدیث مبارکہ)
بزرگان دین اپنے اندر جھاتی مارنے کا حکم دیتے ہیں۔ شاعر مشرق کا بھی یہی پیغام ہے
افسوس صد افسوس شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم صعیفی کی سزا مرگ مناجات