Shoq Aur Peshay Ka Aik Hona
شوق اور پیشے کا ایک ہونا
دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق انسانی مزاج پر ہوئی ہے۔ نفسیات دان انسان کے اندر inborn potential کو ڈسکور کرنے کیلئے سیکڑوں سالوں سے لگاتار ریسرچ کررہے ہیں۔ Daniel Goleman جدید دور کا بہت بڑا نام ہے، جس نے بہترین پروفیشنل بننے کیلئے EQ ایموشنل کوشنٹ کی اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ 1995 میں ان کی شاہکار کتاب Emotional intelligence منظر عام آئی، جس نے کارپوریٹ ورلڈ میں ٹیم بلڈنگ اور CEO، s کی سلیکشن میں انقلاب برپا کردیا۔
وہ فرماتے ہیں کہ بہترین پروفیشنل وہ ہوتا ہے، جس کو اپنی خداداد صلاحیتوں کا علم ہو، جو اپنے آپ پر کمانڈ رکھتا ہو، جو مختلف ذہنوں اور صلاحیتوں کو یکجا کرکے common goal کا حصول ممکن بنا سکتا ہو، جو زمانے کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنے پر یقین کامل رکھتا ہو، جو ادھار موٹیویشن کی بجائے intrinsic motivation رکھتا ہو، جو ماضی کے بوجھ کو توبہ کے ذریعے اُتار کرGuilt کا خاتمہ کرسکتا ہو، جو بلیم گیم کی بجائے اپنے فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کرسکتا ہو۔
جو انسانیت کے درد کو اپنا درد سمجھتا ھو، جو اختلاف رائے کو شعوری بالیدگی کا ذریعہ سمجھتا ہو، جو حالات کی پیداوار بننے کی بجائے حالات کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے وژن پر فوکس کرنے کا عادی ہو، جو اندھیروں کے اندر اپنا دیا جلانے کا حوصلہ رکھتا ہو، جس کی ترجیحات میں فرض کی ادائیگی نمبر1 ہو، جو گروہ کو ٹیم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو، جس کے اندر فائٹنگ اسپرٹ ہو، جو گر کر پھر سے اٹھنے کا جذبہ رکھتا ہے، جو pro-active اپروچ کا مالک ہو، جو دیہاڑی والے انداز فکر سے لیڈرشپ زون میں خود کو ٹرانسفارم کرسکتا ہو۔
جو ہائی ٹارگٹ اچیور ہو اور جب ٹارگٹ اچیور ہو جائے تو اس کا کریڈٹ خود لینے کی بجائے ٹیم کو کیمروں کی چکا چوند میں اِنجوائے کروائے، ناکامی کی صورت میں ٹیم کو بلیم کرنے کی بجائے ذمہ داری خود قبول کرئے، جو win-win اپروچ کا مالک ہو اور جو سوسائٹی کو pay back کرنے کا قائل ہو، جو دوسروں کو بھی اپنی طرح بہترین پروفیشنل بنا کر خوشی محسوس کرئے، جو اپنے اندر موجود نفس کے سانپوں (حسد، غیبت، منافقت، دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنا) کو مار کر دوسروں کی خوشی میں خوشی اور غم میں غم کا احساس رکھتا ہو۔
اسلام خودشناسی(Self-awareness) سے خود کو فتح کرنے(Self-victory) کے سفر کو جہاد اکبر کا نام دیتا ہے، یہ مرد مومن کا ہی معیار ہے کہ وہ اپنی سوچ، طبیعت اور عادتوں پر کنٹرول لےکر خود کو آفاقی پیغام کی روشنی میں کمانڈ دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے عظیم رہنما حضرت ابوبکر صدیق رضہ کا فرمان عالی شان ہے:"اپنی زندگی کا ایک واضع مقصد متعین کرلیجئے اور پھر اپنی ساری توانائیاں اس مقصد پر فوکس کردیں، آپ انشاءاللہ کامیاب و کامران ہوجائیں گے"۔
دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں، بہترین پروفیشنلز، Entrepreneurs، لیڈرز اور عظیم انسان بنیں ہیں، ان تمام کی زندگی میں ایک چیز مشترک تھی کہ ان کا passion اور profession ایک تھا۔ یہ طے ہے کہ کوئی بھی ایجاد، کوئی بڑا مقصد محض محنت کے بل پر حاصل نہیں کیا جاسکتا، محنت دوسرا قدم ہوتی ہے جبکہ وژن big why پہلا قدم ہوتا ہے۔ ہمیشہ اپنے کام سے عشق کرنے والے ہی دنیا میں بڑا فرق breakthrough ڈال سکتے ہیں۔
جو nine to five کا پیراڈائم رکھتے ہوں، وہ محض survival کی لڑائی لڑ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں، جبکہ پیشن اور پروفیشن ایک رکھنے والے Contributer ہوتے ہیں۔ سابق بیوروکریٹ اور اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب ہوں، یا قاسم علی شاہ ہوں، فیض حسن سیال ہوں یا قیصر عباس ہو، قائد اعظم ہو ںیا محترم عبدالستار ایدھی ہوں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں یا عمران خان، بل گیٹس ہو یا مارک زکر برگ ہو سب کے سب passion اور profession ایک ہونے کی قابل تقلید مثالیں ہیں۔
مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب فرماتے ھیں: خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا شوق اس کا روزگار بھی بن جائے۔ ایسا شخص rate race اور دوسرے کے ساتھ موازنہ اور مقابلے سے آزاد ہوجاتا ہے، کیونکہ اس کا موازنہ اور مقابلہ اپنے آپ کے ساتھ ہوتا ہے وہ انسان سازی پر اُتری اس حدیث مبارکہ کی پیروی کررہا ہوتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:- خسارے میں ہے وہ شخص جس کا آج کا دن اس کے گزرے ہوئے دن سے بہتر نہیں، ،
ہمارے استاد محترم سر قاسم علی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جس کا شوق(passion) اور (profession) ایک ہوجاتا ہے وہ وقت کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے، اسے کام تھکاتا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے کام سے چارج ہوتا ہے، انرجی لیتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اللہ پاک نے مقصد حیات کا جو حکم فرمایا ہے تو اس مقصد کے حصول کیلئے جو خاص خزانہ انسان کو عطا فرمایا ہے اسے passion (شوق) کہتے ہیں جس پر فوکس کرکے انسان مقصد حیات کا حصول ممکن بناتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں کیرئیر کونسلنگ کے بڑے بڑے پینل موجود ہیں، جو فرد کو اس کی خداداد صلاحیتوں کو دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاؤہ انتظامی لیول پر بیوروکریٹس، CEOs اور ٹاپ لیڈرشپ کی سلیکشن میں psychologist کا پورا پینل موجود ہوتا ہے تاکہ رجحان اور قابلیت کے مطابق فیلڈ کا انتخاب کروایا جائے۔ اگر لیڈرشپ رجحان والی وگی تو ٹیم بنا کر ادارہ چلائے گی۔
اس کے برعکس ڈکٹیٹرز کی طرح divide & rule سے چلے گی جس سے بلیم گیم اور جوڑ توڑ کا کلچر فروغ پائے گا۔ امریکی گورنمنٹ نے پالیسی بنائی ہے کہ اگر ایک نوجوان سمجھتا ہے کہ میں نے جس فیلڈ میں گریجویشن کی ہے وہ میرا رجحان نہیں تھا تو اسے اجازت ہے کہ وہ پوسٹ گریجویٹ اپنی مرضی کے مضمون میں کرکے اپنی پسند کی فیلڈ کا انتخاب کرئے۔ بنیادی طور پر فرسٹ ورلڈ اور تھرڈ ورلڈ میں جو فرق ہے وہ اسی عنصر کا ہے جو راز بھی ہے اور ابدی خوشی کا ذریعہ بھی۔