Shaoor Haqiqi Difa Hai
شعور حقیقی دفاع ہے
ماضی قریب میں " تقسیم کرو اور حکومت کرو" (divide & rule)کی پالیسی اپنا کر ملک کے اندر طبقاتی تقسیم اور ناانصافی کا فائدہ اٹھا کر سول وار کروا دی جاتی تھی۔ جب سے ڈیجیٹل انقلاب آیا ہے، جنگی حکمت عملی یکسر بدل گئی ہے۔ جس طرح آپ اسمارٹ فون کے ذریعے ہمارا آرٹیکل پڑھ رہے ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کی اکثریت کے پاس Androidٹیکنالوجی کی سہولت موجود ہے۔ یہ ٹیکنالوجی انسان کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے۔ معلومات(information)کا سیلاب آچکا ہے جس سے پوری دنیا ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہے۔
اب issueیہ ہے کہ اگر انسان کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی سہولت موجود ہو لیکن اسے خبر کی تحقیق کا شعور نہ ہو، تو ہر آنے والی خبر اس انسان کو confuse، depressاور فرسٹریشن کا شکار کردے گی جس سے اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت یقیناً متاثر ہوگی کیونکہ اس کے پاس خبر کی rootsتک پہچنے کا شعور نہیں ہوگا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جدید دور کا میدان جنگ borderless ہوچکا ہے۔ وہ میدانوں اور بارڈر سے کمپیوٹر سکرین پر منتقل ہوچکا ہے، جدید weaponکلاشنکوف کی بجائے لیپ ٹاپ ہے، موجودہ مورچہ زمین دوز گڑھا نہیں بلکہ ریسرچ سنٹر اور لیبارٹریز بن چکے ہیں۔
فوجی(Soldiers) وردی والے کی بجائے iT Expertsاور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماہر بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں spaceتک اپنے اڈے بنا چکی ہیں۔ ان ملکوں کا ریسرچ کا بجٹ بلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ بنی نوع انسان زراعت اور انڈسٹری کے مائنڈ سیٹ سے گزر کر نالج بیسڈ اکانومی (Knowledge based)پر شفٹ ہوچکا ہے۔ آج کوئی بھی قوم روایتی انداز فکر سے اپنا دفاع (Deterrence)ممکن بناہی نہیں سکتی کیونکہ ضرورت ملٹری پٹرولنگ سے انٹرنیٹ ٹریفکنگ میں منتقل ہوچکی ہے۔
اس دور میں جس ملک نے جدید تقاضوں کے مطابق خود کو فعال کرکے اپنے شہریوں کی ذہن سازی نہ کی، تو اس کا حریف اسی سسٹم کا استعمال کرکے اس کے شہریوں کے ہاتھوں اس ملک کو اجاڑ دے گا۔ "آج دنیا ٹریڈیشنل وار سے biological warمیں ٹرانسفارم ہوچکی ہے۔ جدید معیشت آرٹیفیشل انٹیلیجنس، بلاک چین اور ڈیٹابیس کے ذریعے ریسرچ کی طاقت سے ایک کمرے کی لیبارٹری سے اربوں ڈالر کما رہی ہے۔ جبکہ کچھ ممالک اپنی لیڈرشپ کے Visionlessہونے کی وجہ سے دال روٹی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
اس thesisمیں پاکستانی قوم کےلئے سبق یہ ہے کہ اصل میدان تحقیق اور انصاف پر مبنی گورننس کا میدان ہے۔ الحمداللہ ہم مثالی جغرافیہ، پروفیشنل فوج، ایٹمی ٹیکنالوجی، بہترین ہیومن پوٹینشل رکھتے ہیں لیکن ضرورت اپنے آپ کو proactiveکرکے سستی(Comfort zone) کے دائرے سے نکال کر Visionکا ٹریک اپنانے کی ہے۔ اس کےلئے ہمیں بطور ِقوم دو ترجیحات کو ٹاپ آف دی لسٹ لانا ہوگا۔
(1) عدل و انصاف کے ذریعے Rule of Lawکو یقینی بناکر معزز شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
(2) تعلیم و تربیت، ریسرچ و ٹیکنالوجی کے میدان آباد کرنا ہونگے تاکہ ہمارا ہر شہری باکردار اور باشعور بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے، اور دشمن کے بچھائے جدید جال کا شکار ہونے سے محفوظ رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے ملکی سالمیت کیلئے Researchکو نمبر 1 ترجیح دے کر قوم کو باشعور اور باکردار بناکر وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنائیں، کیونکہ ہمیں ایسے دشمن کا سامنا ہے جو بےاصول اور ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس بھی ہے۔
قرآن پاک میں سات سو سے زیادہ مرتبہ تحقیق کا حکم دیا گیا ہے۔ حوالے کے طور پر مشہور حدیث مبارکہ پیش خدمت ہے۔
" عالم (Scholar) کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہے"۔