Saakh Ka Bohran
ساکھ کا بحران
ہمیشہ وہ قوم اور ملک ترقی کرتے ھیں جو اپنے ملک کو اللہ پاک کے بنائے ھوئے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ملکی آئین ترتیب دے کر اُس آئین کے مطابق ملکی ادارے قائم کرکے گڈگورننس کو یقینی بناتے ھیں۔ جس سے وہ قوم ہر میدان میں اپنا لوھا منواتی ھے۔ ایسی قومیں اپنے مضبوط فیصلوں سے اپنی قوموں کا نصیب بدل دیتے ھیں۔ معاشی طور پر ابھرتی سپر پاور چین سے لے کر ملائشیا تک، ترکی سے لےکر سنگاپور تک تمام طاقتور ممالک کی بنیادیں انکے گورننس سسٹم اور اداروں میں پوشیدہ ھیں، ان ممالک میں کوئی بھی اپنی من مانی کی جرات نہیں کرسگتا، انصاف کی بالادستی کا یہ عالم ھے کہ ان ملکوں میں ریڑھی والہ اور سربراہ مملکت ایک ھی قطار میں کھڑے ھوتے ھیں، کسی کو کسی قسم کی کوئی immunity استشنٰی کا تو سوچا ھی نہیں جا سگتا، ان ممالک کی تمام پالیسیاں pro-active اور Vision بیسڈ ھوتی ھیں، آج مثالی ماحول کی وجہ سے تقریباً 38000ملٹی نیشنل کمپنیز نے اپنے ھیڈ آفس Washington سے Shanghai منتقل کردیے ھیں۔ ان ممالک کے ادارے دنیا میں بہترین ساکھ credibilty رکھتے ھیں اور میکنیزم ملک کی طاقت ھوتا ھے۔
انتشار، بدحالی، غربت، فساد اور ناانصافی اُس قوم کا مقدر بن جاتی ھے جہاں ادارے ایلیٹ کلاس کی چاکری کررھے ھوں اور بدقسمتی سے پاکستان اُن ممالک میں صف اول میں کھڑا ھے جہاں ادارے لاغر اور پسماندگی کا ماتم کررھے ھیں۔ سوائے پاکستان آرمی کے جس نے مضبوط میکنیزم، سخت ڈسپلن اور ھزاروں جانیں نچھاور کرکے اپنی Credibility کو برقرار رکھا ھے جس وجہ سے وطن عزیز کے عوام ھر مشکل لمحے اپنی افواج کو اپنے ساتھ کھڑا پاتے ھیں بہرحال قربانی دینا پڑتی ھے اور بااصول میکنیزم وقت کی ضرورت ھے۔
پولیس فورس کی بات کرلیتے ھیں جو امن و امان قائم رکھنے میں پہلے نمبر پر آتا ھے مگر کارکردگی کے لحاظ سے آخری لائن میں کاؤنٹ ھوتا ھے جس کی بنیادی وجہ اس ادارے پر سیاسی اثرورسوخ ھے، پوسٹنگ کیلئے پولیس کی لیڈر شپ کو ہر لمحے پولیٹیکل لیڈرشپ کی طرف دیکھنا پڑتا ھے اور یہی سے غلامی اور ضمیر فروشی کا آغاز ھوتا ھے۔ پاکستان کی اکثریت دیہات میں رھتی ھے جہاں پر مقامی وڈیرے اور گدی نشین کا راج ھے، وہ اپنی مرضی کی تعیناتیاں کروا کر اپنے لوگوں کو پروٹیکٹ کرتا ھے اور اپنے مخالفین کو انھی اداروں کو استعمال کرکے عام آدمی میں خوف پھیلاتا ھے جس سے ایک طرف بےانصافی عروج پکڑتی ھے تو دوسری طرف معزز شہری کا اعتماد پولیس فورس پر کم ھوجاتا ھے وہ پولیس کی مقامی قیادت کو اپنے وڈیرے کی کٹ پتلی سمجھتا ھے۔ اس تصور کی وجہ سے عوام اور پولیس فورس میں بداعتمادی کی خلیج وسیع تر ھوتی جارھی ھے جو لمحہ فکریہ ھے، ضرورت اس امر کی ھے کہ پولیس فورس کو 1861 کے تحت چلانے کی بجائے جدید ریفارمز کی جائیں اور پولیس فورس کو ٹرانسفر اور پوسٹنگ کیلئے پاک فوج کی طرز پر empower کیا جائے ورنہ چھوٹو گینگ تو شاید وقتی دم توڑ جائے لیکن ان کے اسپانسر اگر آزادانہ پھرتے رھے تو وہ نئی صف بندی کرلیں گے جس کی نشاندھی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کرچکے ھیں:"اگر ملک کے سول ادارے Civil institutions مضبوط اور فعال نہ ھوئے تو اندرونی ناانصافی کی وجہ سے پاک فوج کو ھر دس سال بعد نیا ضرب عضب کرنا پڑے گا"۔
سابق آئی جی سندھ نے AD Khawaja صاحب نے پالیسی بیان دیا: "آٹھاروں صدی کا میکنیزم دے کر آکیسویں صدی کا حساب مانگا جا رھا ھے"۔
ٹیکنالوجی نے آج دنیا کو واقعی گلوبل ویلج بنا دیا ھے جس نے معزز شہری کو باشعور بنا دیا ھےضرورت اس امر کی ھے کہ جدید تقاضوں کے مطابق پولیس ریفارمز کی جائیں اور پولیس فورس کے ڈیوٹی آورز، سیلری پیکجز، جدید اسلحہ، ٹریننگ، بہترین گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر اختیارات تفویض کرکے ھر طرح، ھر جگہ اور ھر زاویے سے مداخلت ختم کی جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ھو ورنہ بداعتمادی کی خلیج کا تاوان ھماری نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ یاد رکھیں ساکھ ادارے کی روح ھوتا ھے اور ساکھ بنتی ھے ڈیلیور کرنے سے اور ڈیلیور ھوتا ھے empower کرنے سے اور empowerment تب ھوگی جب عوام شعوری پختگی کے ذریعے خود کو یونیورسل سیٹیزن بنائیں گے کیونکہ فرد سے معاشرہ بنتا ھے اور اسی معاشرے سے افرادبھرتی ھوکر ملکی اداروں کو جوائن کرتے ھیں لہذا اداروں کو ترقی یافتہ بنانا ھے تو فرد کو حیادار، ایماندار، پروفیشنل اور خوددار بناؤ تاکہ ملکی اداروں کی ساکھ بحال ھوسکے۔ فلسفہ قرآن بھی یہی ھے: جیسی قوم ھوتی ھے ویسے حکمران ھوتے ھیں۔