Rahmatul Lil Alameen
رحمتہ اللعالمین
عرب کی سرزمین پر اندھیروں کا راج تھا، ہر طرف ظلم کے سوداگر چھائے ھوئے تھے، بےاصولی پر قائم خاندانی سرداری نظام میں حق و سچ کی آواز طاقت سے دبا دی جاتی تھی، انسان تو انسان جانور بھی وڈیروں کے ظلم سے محفوظ نہ تھے حتیٰ کہ زندہ جانوروں کو باندھ کر محض شغل کیلئے تیراندازی کی جاتی تھی، زندہ اونٹ کے بدن سے گوشت کاٹ لیا جاتا تھا۔ ناانصافی کا یہ عالم تھا کہ طاقتور قبیلہ کمزور قبیلوں کو اکثریت اور خودساختہ شناخت کے زور پر دبا کر استحصال کرتا تھا۔ الغرض سودی معیشت سے لےکر سماجی ناانصافی تک کوئی ایسا جرم نہ تھا جو زمانہ جاھلیت میں عربوں میں نہ ھوتا ھو۔ اس معاشرے میں اچھے لوگ بھی تھے لیکن ان کا طاقت کے مراکز میں کوئی خاص کردار نہ تھا۔
یہ اللہ پاک کا آفاقی قانون ھے کہ جب بھی اندھیرے کی فورسز نے معاشرے کی بقاء پر ھاتھ ڈالا ھے قدرت نے انسانیت کی بقاء کو ممکن بنانے کیلئے مرد میدان اتارے ھیں جنہوں نے معاشرے کی تعلیم و تربیت اللہ پاک کے آفاقی پیغام پر فرمائی جس سے مثالی فرد پیدا ھوا، فرد سے افراد، افراد سے مثالی معاشرے نے جنم لیا۔ باشعور انسانوں نے اپنے لیڈر کے ساتھ مل کر اسٹیٹس کوء کی طاقتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ مشہور یورپین رائٹر مائیکل ھارٹ نے اپنی شاھکار کتاب The 100 most influential personalities in the world میں اعتراف کیا کہ انسانی تاریخ میں جس عظیم شخصیت نے معاشرت، معیشت اور سیاست کے میدانوں میں مثالی انقلاب برپا فرمایا وہ ھمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ھیں۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے ایک طرف فارس کا آتش کدہ بجھ گیا تو دوسری طرف مظلوموں اور کمزوروں کو آفاقی شناخت ملی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں دھائیوں سے ناانصافی کا راج تھا وھاں سرکار دوعالم ﷺ نے انسانوں کی آفاقی اصولوں کے مطابق تربیت فرماکر انھیں اندر سے اتنا باشعور بنا دیا کہ وہ زمانے کے لیڈر قرار پائے۔
تیرہ سالہ مکہ شریف کی زندگی مسلسل مشکلات، چیلنجز اور قربانیوں سے بھرپور تھی۔ عظیم قائد نے عام کہلانے والے انسانوں کو خطبہ حجتہ الوداع کے ذریعے غلامی کے پس منظر سے actualize فرما کر لیڈرشپ کا رول عطا فرمایا۔ یہ وہ شعوری انقلاب تھا جس میں انسان نے انسان کی غلامی سے نکل کر اپنے حقیقی منصب کو پہچانا۔ یہ تربیت کا ھی کمال تھا کہ مؤذن رسول حضرت بلال رضہ اللہ تعالٰی عنہ مؤذن ھونے کے ساتھ ساتھ بہترین سپہ سالار بھی تھے۔ صحابہ کرام علیہ السلام رو رو کر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے تھے کہ اللہ پاک نے ان کے پاس اپنا محبوب بھیج کر عظیم احسان فرمایا۔ ھجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلی ترجیح مسجد نبوی کی تعمیر قرار پائی تاکہ مسلمانوں کا ایک مرکز ھو جس میں اللہ پاک کی عبادت کے ساتھ ساتھ افراد کی قرآن و سنت کے مطابق تعلیم و تربیت ھوسکے۔ تاریخ گواہ ھے کہ اقرا سے شروع ھونے والی تحریک ھجرت سے ھوتی ھوئی ستائیس غزوات تک پہنچی، کئی معاھدات اور حکمت عملیوں کے نتیجے میں مکہ فتح ھوا۔ یہ عظیم مشن اللہ پاک کے کرم، نبی پاک ﷺ کی مثالی لیڈرشپ، آفاقی وژن Vision اور وژن کے مطابق ٹیم بلڈنگ سے ممکن ھو پایا۔ مشہور مقولہ ھے کہ یہ لیڈرشپ ھی ھوتی ھے جس کی وجہ سے قومیں عروج و زوال کا سفر طے کرتی ھیں
Leadership can make & break the Nations
عرب تاریخ یہ بتلاتی ھے کہ عرب میں انسان بھی وھی تھے، خطہ بھی وھی تھا اور وسائل بھی وھی تھے بس لیڈرشپ کے بدلنے سے عرب اندھیروں سے نکل تبدیلی اور روشنی کے سفیر کہلائے۔ عظیم لیڈرشپ نے محض 23 سال کے مختصر عرصے میں اپنے وژن کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں ٹرانسفارم فرماکر reality میں تبدیل فرما دیا۔ ایسا مثالی معاشرہ بنا جس کے تاجر بھی پوری دنیا میں ایمانداری اور پروفیشنلزم کی وجہ سے بہترین تاجر قرار پائے اور war zone میں بھی ایسے ایسے سپہ سالار تیار ھوئے جن کی جنگی حکمت عملیاں جدید دور کی ملٹری اکیڈمی کے سلیبس میں ٹاپ پر سمجھی جاتی ھیں، ایسے عادل حکمران بنے جن کے فیصلے آج بھی امریکہ کے آئین میں Hazrat Umar (RA) Laws کے نام سے شامل ھیں۔ آپ سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے انقلاب کی بنیاد کردار سازی اور آفاقی شعور پر رکھی، اسلام کی انسان سازی Human development پر مبنی مثالی تحریک سے ھمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ھے کہ کوئی بھی مشن overnight پورا نہیں ھوسگتا، عظیم تبدیلی کیلئے مثالی وژن چاھئے ھوتا ھے اور اسی وژن کے مطابق بہترین ٹیم بلڈنگ کرنا پڑتی ھے، پھر تعلیم و تربیت کے بعد قربانیوں اور عمل، ردعمل کے مراحل آتے ھیں، پروپیگنڈے ھوتے ھیں، منافقین کے ذریعے اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ھے، بالاخر سچ غالب آجاتا ھے۔
یہ طے ھے کہ Vision پر سمجھوتہ مشن کیلئے قبرستان ثابت ھوتا ھے۔ یہ آفاقی نظریے کی طاقت تھی جس نے 23 سالہ عظیم جدوجہد کی وجہ سے پوری دنیا پر impact ڈالا، تین براعظموں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ھوئی، روم اور فارس کی سلطنتیں زمین بوس ھوئیں، صحراؤں سے سمندر تک مرد مومن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی زد میں آگیا۔ تاریخ گواہ ھے کہ مسلمانوں نے جب تک قرآن و سنت کے مطابق اپنا گورننس سسٹم چلایا تو زمانے نے انھیں لیڈر بنا لیا، معاشرت سے لےکر معیشت تک، میڈیکل سائنس سے لےکر جوڈیشری تک، عائلی زندگی سے سیاست تک کی گائیڈ لائن مسلمانوں سے لی گئی۔ افسوس آج جو حالت مسلمانوں کی ھے اس کے ذمہ دار بھی یہ خود ھیں، مسلم امہ پر آج بادشاھوں، وڈیروں اور مافیاز کا راج ھے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ان کے بجٹ چلا رھے ھیں۔
حقیقت یہ ھے کہ مسلم امہ کے حقیقی رول سے ھٹ جانے کی وجہ سے پوری انسانیت سود خوروں اور غلبے کی ذھنیت رکھنے والے عناصر کے قبضے میں آچکی ھے۔ کمیونزم کب کا برباد ھوچکا، سرمایہ دارانہ نظام آخری ھچکیاں لے رھا ھے۔ آج پھر دنیا کو انصاف پر مبنی نظام کی تلاش ھے، آج پوری دنیا کے وسائل پر محض 2٪ عناصر کا قبضہ ھے۔ امریکہ جیسے ملک میں ھزاروں لوگ آج بھی بےگھر ھیں، انڈیا میں کروڑوں انسانوں کا مسکن آج بھی فٹ پاتھ ھیں، افریقہ بدترین استحصال کا شکار ھے اور یہی حال مڈل ایسٹ کا ھے۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ مسلم امہ کے ہر فرد کو سیرت النبی ﷺ سے روشنی لےکر خود کو باکردار باپ، بیٹا، بیٹی، ماں، پروفیشنل اور اسکالر بن کر لیڈرشپ کا منصب سنبھالنا ھوگا تاکہ اللہ پاک نے انسانیت کی راہنمائی کا جو فریضہ مسلم امہ کے ہر فرد کو سونپا ھے اس کی تکمیل ممکن ھوسکے۔ بطور مسلم امہ کے فرد ھونے کی حیثیت سے الحمداللہ میں یہ رول اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرنے کیلئے تیار ھوں۔ اس میں مجھے خود کو قرآن و سنت کے مطابق بدل کر اس دنیا میں ایک اچھے انسان کا اضافہ کرنا ھے۔
کیا آپ بھی تیار ھیں تاکہ مثالی معاشرہ ترتیب پاسکے؟ ؟ ؟
اللہ پاک کا فرمان مبارک ھے: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر ما بانفسھم۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے: سب سے بڑی فتح خود کو فتح کرنا ھے۔
" خسارے میں ھے وہ شخص جس کا آج کا دن اس کے گزرے ھوئے دن سے بہتر نہیں"۔
بقول شاعر مشرق:-
افسوس صد افسوس شاھیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ھے ازل سے
ھے جرم صعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
٫٫ کوئی قابل ھوتو ھم شان کئی دیتے ھیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ھیں