Qasim Ali Shah Sahib Se Kahan Bhool Hui Hai?
قاسم علی شاہ صاحب سے کہاں بھول ہوئی ہے؟
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے ایک ملاقات نے محترم سید قاسم علی شاہ صاحب کو پاکستان کی Youth میں متنازعہ بنا دیا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ انسان کو اس کے بدترین دشمن مل کر بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا نقصان اسے اپنے فیصلے (Decisions) پہنچاتے ہیں اور یہی کچھ محترم سید قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ ہوا بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ قاسم علی شاہ صاحب نے خود اپنے ساتھ کیا۔
آپ واقعات کی ترتیب ملاحظہ فرمائیں اور کڑیاں ملاتے جائیں تو پوری تصویر نکھر کر سامنے آ جائے گی۔ کہانی کا آغاز ہوتا ہے قاسم علی شاہ اکیڈمی سے جو محض گیراج نما کمرے سے Initiative لیا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں عظیم الشان کامیابیوں کے بعد یہ سفر 2017 میں قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس فاؤنڈیشن سے سیکڑوں جوان براہ راست تعلیم و تربیت کا عمل مکمل کرتے ہیں اور لاکھوں نوجوان آن لائن مستفید ہوتے ہیں۔
پھر ایک اور موڑ آتا ہے اور قاسم علی شاہ صاحب 42 ویں سالگرہ مناتے ہیں اور اس سالگرہ سے پہلے شاہ جی نے خود سے عہد (Commitment with himself) کیا ہوتا ہے کہ وہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن جیسا شاندار پروجیکٹ چھوڑ کر اس کے اعزازی چیئرمین رہیں گے اور باقی زندگی پاکستان کے نام کر دیں گے جس میں ان کا مکمل فوکس پاکستانی قوم بالخصوص Youth کو لیڈرشپ کی حقیقی تربیت اور Political awareness دینا ہوگا۔
یہاں تک کی کہانی بڑی دلچسپ اور impressive ہے لیکن اتنے عظیم پروجیکٹ کو پایاں تکمیل تک پہچانے کیلئے جو راستہ انہوں نے اختیار فرمایا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ میرے یہاں کچھ سوال ہیں جو میں انتہائی عاجزی سے اپنے استاد محترم سید قاسم علی شاہ صاحب سے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اگر آپ نے قوم کو لیڈر شپ کی تربیت ہی دینی تھی تو یہ کام تو آپ already قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں کر رہے تھے پھر اس کیلئے سیاسی اکابرین کے انٹرویوز کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
آپ کے مطابق آپ سیاست میں نہیں آ رہے تو پھر ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین سے پارٹی ٹکٹ مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر آپ لیڈر شپ پہ ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے انٹرویوز کرنا چاہ رہے تھے تو پھر پوچھے گئے سوالات اتنے جاندار کیوں نہیں تھے؟
آپ نے جب انٹرویوز کر لئے تھے تو ان انٹرویوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ فرما دیتے اور قوم خود فیصلہ کرتی کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے لیکن آپ نے الیکٹرانک میڈیا کو جو بعد میں اپنا تجزیہ ان سیاسی اکابرین کے بارے میں دیا وہ دینا کتنا ضروری (Relevant) تھا؟
جب آپ کا ماننا یہ ہے کہ یہ نظام کرپٹ ہے اور یہ کرپٹ لوگوں کو اوپر لاتا ہے اور آپ کے بقول آپ Youth کو سیاسی آگاہی دے کر اس بوسیدہ نظام کی بوسیدہ عمارت گرانا چاہتے ہیں تو نظام کی تبدیلی کا راستہ تو ووٹ کی سیاست سے Totally different ہے تو پھر آپ نے اس نظام کو بدلنے کیلئے اسی سسٹم کی ایک پارٹی میں بطور سیاستدان شامل ہونے کی عرضی کیوں پیش کی؟
کیا اس راستے سے یہ نظام بدل سکتا تھا، سکتا ہے یا بدلے گا؟
اس جیسے ہزاروں سوالات ہیں جو میں آپ سے بطور اسٹوڈنٹ آف لیڈر شپ پوچھ سکتا ہوں۔ حیرت ہے کہ آپ نظام پر سوالات بھی اٹھا رہے ہیں، آپ اس نظام کو بدلنا بھی چاہتے ہیں اور آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ میری لڑائی کسی سے بھی نہیں اور ہر اس شخص سے ہے جو پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرے۔ آپ Status quo کو پسند بھی نہیں کرتے اور پھر اسی Status quo کا حصہ بھی بننا چاہتے ہیں۔
آپ کو خود کو کلیر رکھنا چاہئے تھا، اگر آپ صرف لیڈر شپ پر بات کرنا چاہتے تھے تو وہ تو Qasim Ali Shah foundation کے پلیٹ فارم سے احسن انداز سے سر انجام پا رہا تھا اور اگر آپ سیاست کرنا چاہتے تھے تو آپ کوئی بھی پارٹی جوائن کر کے آسانی سے سیاست کر لیتے یا اپنی سیاسی پارٹی لانچ فرما دیتے۔ اگر آپ نظام بدلنا چاہتے تھے تو پھر ان سیاسی عمائدین سے انٹرویوز کر کے ان سے ٹکٹ مانگنے کی بجائے آپ واضح مؤقف اپناتے، اپنی تحریک کا آغاز نوجوانوں سے کرتے اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹیم تیار کر کے بیس سالوں میں پورے نظام کو چیلنج کر دیتے۔
اس کیلئے پارٹی ٹکٹ کی مانگ کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔ آپ نے واضح مؤقف نہ اپنا کر نہ صرف خود کو برباد کر دیا ہے بلکہ Youth کے اندر خود کو غیر مقبول کرکے تعلیم و تربیت کے میدان کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ گلشن اب بدگمانی کے صحرا میں بدل جائے گا۔ جب آپ کا ارادہ سیاست کرنے کا نہیں تھا تو پھر محترم عمران خان صاحب سے اتنے کمزور سوالات بالخصوص ٹکٹ مانگ کی ڈیمانڈ کی کیا تک تھی؟
اور اگر ارادہ سیاست تھا تو پھر عمران خان صاحب سے ٹکٹ کا وعدہ لےکر پھر پرویز الٰہی اور وزیراعظم پاکستان سے انٹرویوز کی کیا ضرورت باقی بچی تھی؟ جناب والا جو Political awareness دیتے ہیں وہ ٹکٹس نہیں مانگا کرتے اور جو ٹکٹس مانگتے ہیں وہ پھر انٹرویوز نہیں کیا کرتے۔ افسوس اسی کنفیوژن کی وجہ سے Youth آپ کو سننا چھوڑ رہی ہے جس کا ultimate نقصان آگاہی کے سفر کو ہوگا جو دو دہائیوں سے جاری تھا۔
افسوس آپ کے اسی فیصلے کی وجہ سے آج کے لمحے میں سوشل میڈیا پر دو گروپس بن چکے ہیں اور دونوں ہی Youth کے ہیں۔ ان میں ایک گروپ محترم عمران خان صاحب کو Defend کر رہا ہے جبکہ دوسرا گروپ بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے، وہ محترم سید قاسم علی شاہ صاحب کو اسپورٹ کر رہا ہے۔ اس کا نقصان بالآخر awareness track کو پہنچے گا اور ہمارا معاشرے میں تبدیلی کا سفر مزید کئی دہائیوں تک لمبا ہو جائے گا۔
میرے خیال میں عمران خان صاحب اور قاسم علی شاہ صاحب دونوں ہی میرے ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں کیونکہ ان کا تعلق عوام کی کلاس یعنی مڈل کلاس سے ہے اور دونوں ہی ملک کے اندر تبدیلی کے خواہاں ہیں اور نوجوان نسل کیلئے Mentorship کا درجہ رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں کا اپنے اپنے راستے سے Contribution ملک و قوم کی ضرورت ہے۔
محترم قاسم علی شاہ صاحب یہ قوم سات دہائیوں سے انصاف و خوشحالی کو ترس رہی ہے اور یہ قوم بالخصوص نوجوان نسل اپنے نقطہ نظر سے محترم عمران خان صاحب کو اپنا نجات دہندہ تصور کر چکی ہے۔ اب جو بھی عمران خان صاحب کے بارے میں کوئی ایسی رائے دے دیتا ہے جو Youth کو ناگوار گزرے تو وہ اسی لمحے نوجوانوں کی دنیا میں جو ہر وقت ان کے ہاتھ اور جیب میں ہے یعنی سوشل میڈیا پر خوفناک اثرات کا شکار ہو جاتا ہے جس کا اندازہ آپ کو پچھلے دو دنوں میں ہو چکا ہوگا۔
میری رائے میں آپ کے خلاف چلنے والی سوشل میڈیا کمپین کا ذمہ دار کوئی اور ہو نہ ہو، آپ خود ذمہ دار ضرور ہیں۔ آپ کے مبہم اور غیر واضع فیصلوں نے آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جس کے آپ خود responsible ہیں۔ اب بھی آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ اپنا مؤقف واضع فرمائیں کہ آپ بنیادی طور پر چاہتے کیا ہیں۔