Pakistani Siasat Band Gali Mein
پاکستانی سیاست بند گلی میں
انسان نے خاندان اور قبیلے سے ریاست کا سفر اپنی بقاء کو یقینی بنانے کیلئے کیا۔ معاشرے کی بقاء میں سب سے بڑا کردار افراد کے مثالی کردار اور آفاقی نظریہ کا ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی شئے اپنی وجہ تخلیق، کھو بیھٹے تو اس کا وجود خود بخود تحلیل ہو جاتا ہے۔ قومیں اور معاشرے جب تک اپنے why (وجہ تخلیق) سے جڑے رہتے ہیں زمانہ انھیں اپنا رہنما بنا لیتا ہے بشرطیکہ ان کا why اللہ پاک کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہو۔
ریاست مدینہ پوری دنیا کیلئے فلاحی ریاست کے طور پر بطور مثال تسلیم کی جاتی ہے۔ یورپین اسکالر مائیکل ہارٹ کو ماننا پڑا کہ اگر کوئی دنیا میں روحانیت، معاشرت، معیشت اور سیاست کے میدان میں عظمت کے جھنڈے گاڑھ چکا ہے تو وہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی بابرکت ذات مبارکہ ہے۔ مکہ شریف سے شروع ہونے والا عظیم انقلاب پوری دنیا میں غالب آکر رہا۔ یہ مثالی کامیابیاں اس وجہ سے ملیں کہ عظیم لیڈرشپ نے عظیم Vision کی بنیاد پر انسانیت کو عظمت کی معراج پر فیض فرمایا۔
اس کے مقابلے میں یونان سے لےکر روم تک، پرشیئن امپائر سے لےکر موجودہ یورپی تہذیب تک آفاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا فرمان آج سچ ثابت ہو چکا ہے، آج پورپی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خودکشی کر چکی ہے۔ یورپ میں خاندانی نظام ٹوٹ چکے ہیں۔ ان کی معیشت چند سود خور خاندانوں کے ہتھے چڑھ چکی ہے، حکمرانوں کی ناانصافی پر مبنی جنگی پالیسیوں نے یورپ کے باشندوں کو عالمی برادری میں مشکوک اور غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آج معاشی میدانوں میں چین، ترکی اور ملائشیا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امن و خوشحالی کی روح اللہ پاک کے آفاقی اصول ہوتے ہیں، جو اپنا لیتا ہے وہ عروج پاتا ہے otherwise عبرت ناک انجام مقدر بنتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان ایک عظیم خواب Vision اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی باکردار لیڈرشپ کی وجہ سے معرض وجود میں آیا۔ اس کے بننے میں دہائیوں پر محیط سیاسی جد وجہد شامل تھی۔
مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے وطن عزیز کا حصول ممکن بنایا۔ مسلم لیگ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے مسلمانوں کی سفیر تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جہاں فانی سے رحلت کے بعد وطن عزیز پر انگریزوں کی supervision میں بنی Unionist پارٹی کی باقیات کا قبضہ ہو گیا جنہوں نے ذاتی مفاد کیلئے ایسے زہریلے بیج بوئے جس کی فصل پوری قوم کو ناانصافی، غربت، انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی اور بلین ڈالر قرضوں کی صورت میں کاٹنا پڑی۔
انہی وڈیروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں اور سرداروں کی اقتدار کیلئے آپس میں سرد جنگوں کی وجہ سے بیورو کریسی کے نمائندے سکندر مرزا نے مارشل لاء لگایا جس کو بعد میں خود بھی فارغ ہونا پڑا۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں قائد اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد حقیقی معنوں میں سیاسی کلچر اپنی جڑیں نہ بنا سکا کیونکہ سیاسی منظر نامے پر سیاسی نمائندوں کے نام پر یونینسٹ پارٹی کے وڈیرے وارد ہو چکے تھے جنہوں نے سیاسی پارٹیوں کے نام پر پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنا لیں جن کا مقصد why خود کو با اختیار بنانا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد پہلی جینوئن سیاسی پارٹی 30 نومبر 1967 میں پیپلز پارٹی کے نام سے ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی جس کا نعرہ عوامی شعور اور روزگار تھا۔ بھٹو صاحب کرشماتی شخصیت کے مالک ہونے کی وجہ سے جلد ہی عالمی کھلاڑیوں کے ریڈار میں آ گئے۔ پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایم کیو ایم اور ن لیگ (حادثاتی پارٹیاں) وجود میں آئیں۔
واضع رہے کہ کوئی ڈکٹیٹر کسی سیاسی پارٹی کو ختم نہیں کر سکتا بلکہ سیاسی پارٹیاں ہمیشہ اپنے Vision پر کمپرومائز کی وجہ سے اجڑتی ہیں۔ یہی کچھ پاکستان کی پولیٹیکل پارٹیز کے ساتھ ہوا۔ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روایت نے ایک طرف جہاں سیاسی کلچر کو کمزور کیا وہاں نان ڈیمو کریٹک فورسز طاقتور ہوئیں۔
میرے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ طاقتور ترین خاندان ہیں جنہیں جدید دنیا electables کے نام سے جانتی ہے جن کا مقصد من پسند انتظامی افسران کی اپنے اپنے حلقوں میں پوسٹنگ کروا کر اپنی ہی عوام کو خوف کے ذریعے کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ ان موقع پرستوں کی بنیادیں مغلوں سے شروع ہوتی ہیں جو mughals kings کے کمزور ہونے پر انگریزوں سے مل گئے۔ گاندھی کے لینڈ ریفارمز کے نعرے نے انھیں قائداعظم سے ملنے پر مجبور کیا۔
انہوں نے ہر آنے والے طاقتور کے ہاتھ کو چوما اور جانے والے کا سر بھی سلامت نہ رہنے دیا۔ یہ وہ موقع پرست ہیں جو ہر پارٹی میں شامل ہو کر اسے ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ شعوری غربت کی وجہ سے عوام ہجوم کی صورت میں ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہر ڈکٹیٹر کو بھی ان کی ضرورت تھی اور پارٹیوں کے سربراہاں کو بھی ان سے سمجھوتے کرنے پڑے۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہاں نے جو بویا وہی کاٹا۔
اگر عام آدمی کا دل گڈ گورننس سے جیتا جاتا تو پولیٹیکل لیڈرشپ کو ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ بلیک میل نہ ہونا پڑتا جس کی بہترین مثال طیب اردگان اور مہاتیر محمد ہیں۔ خود کو تبدیلی کا سفیر سمجھنے والے عمران خان نے بھی اقتدار کیلئے انہی electables کو ساتھ ملایا جنہوں نے محض ساڑھے تین سال میں ہی PTI لیڈر شپ کی 23 سالہ جدوجہد کو zero کر دیا ہے۔
سبق یہ ہے کہ پاکستان جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا۔ وطن عزیز میں امن و خوشحالی کا گلشن اس وقت تک آباد ہو ہی نہیں سکتا جب تک حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری اقدار کو نظام حکومت اور معاشرتی کلچر کا حصہ نہیں بنا دیا جاتا۔ اس کی ابتدا سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو خود کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں حقیقی معنوں میں جمہوری بنا کر عوام کو لیڈر شپ کا حق دینے سے کرنی ہو گی ورنہ electables کے ذریعے آپ شاید اقتدار تو پالیں گے لیکن آپ کا انجام بھی ماضی کے حکمرانوں سے مختلف نہ ہو گا۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: "تم سے پہلے کئی قومیں اس لئے تباہ و برباد ہو گئیں کہ جب ان کا طاقتور شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا جبکہ کمزور سے جرم سرزد ہونے پر پورا قانون لاگو ہوتا"۔