Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Na Nazar Aane Wale Phande

Na Nazar Aane Wale Phande

نہ نظر آنے والے پھندے

میرا سیکڑوں دنوں پر مشتمل مشاہدہ مجھے کئی ایسے شکنجوں اور ان دیکھی بیڑیوں سے روشناس کرا گیا جن کی وجہ سے میں وہ مقام حاصل نہ کر پایا جس کا رب کریم نے مجھے پوٹینشل عطا فرمایا ھے۔ یہ وہ بیڑیاں ہیں جو مجھ جیسے مڈل کلاس گھرانوں میں پیدا ھونے والے لاکھوں جوانوں کو اپاہج بنا دیتی ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ھے کہ یہ بیڑیاں ہمارے اپنے، ہمارا ماحول اور ہمارا سماج ہمیں لگا دیتا ھے۔ یہ وہ شکنجے ہیں جو بظاھر نظر نہیں آتے لیکن ان کی پکڑ اتنی مضبوط ھوتی ھے کہ انسان کی چیخیں اور آنسو ھونے کے باوجود سنائی اور دکھائی نہیں دیتے کیونکہ یہ انسان کی سوچ کو لگتی ہیں، انسان کو شعوری طور پر معذور بنا دیا جاتا ھے۔ یہ وہ خوف ھوتے ہیں جو ہم جیسے نوجوانوں کو اقبال کا شاھین بننے سے روک دیتے ہیں اور شعوری بونا بنا دیتے ہیں۔

سب سے پہلی بیڑی پیدا ھوتے ھی لگ جاتی ھے۔ ہم پیدا ھوتے ھی کئی نظروں کی چوائسز کی نظر ھوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ھے کہ پیدا ھونے والی اولاد بیٹا ھے یا بیٹی؟

اگر بیٹا ھوتو قرض تک لےکر ہزاروں روپے کی مٹھائی بانٹیں جاتی ہیں، دوست رشتہ دار خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر بیٹی پیدا ھوجائے تو خاموشی تاری ھوجاتی ھے، ہر طرف ہو کا عالم طاری ھوتا ھے۔ بالخصوص برصغیر میں پیدا ھونے والے باشندوں کے اور ھی معاملات ہیں۔ یہاں دو کلاسیں آباد ہیں:

(1) ایلیٹ کلاس جس میں بزنس کمیونٹی، فوج کی ٹاپ براس، بیوروکریٹس، سیاستدان اور انڈر ورلڈ کے لوگ آتے ہیں جن کے سامنے قانون کی گگی بند ھوجاتی ھے۔

(2) دوسری کلاس میں کروڑوں کی تعداد میں عوام آتے ہیں جن پر ایلیٹ کلاس کا حکم بذریعہ سرکاری اہلکار اور انڈر ورلڈ کے مافیاز کے ذریعے چلتا ھے۔

آج میری مراد دوسری کلاس کے نوجوان کو پیش آنے والے بیریرز، سپیڈ بریکرز اور ان دکھے شکنجے ہیں۔ ہم تھوڑے بڑے ھوتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر، خاندان اور سماج میں ان دکھا خوف لہروں کی شکل میں جکڑ لیتا ھے۔ یہ خوف کسی مقامی وڈیرے، سردار اور گدی نشین کا ھوتا ھے جس سے ہمارے باپ، دادا متاثر ھوتے ہیں کیونکہ انہوں نے مقامی جاگیرداری کو ملکی قانون سے زیادہ طاقتور دیکھا ھوتا ھے اور ان کی اپنی زندگی بھی انہی سرداروں کے نعرے لگاتے گزرتی ھے جس سے ان کی اولادوں میں بھی وہی خوف جینز کے ذریعے منتقل ھوکر ہمیں کمپلیکس میں مبتلا کرکے ہماری خودی پر حملہ آور ھوتا ھے جس سے خوفناک قسم کا identity crisis جنم لیتا ھے جو body language کا حصہ بن جاتا ھے۔

دوسری قسم کی بیڑی ہمیں قومیت کی شکل میں لگتی ھے جس میں مبتلا انسان اپنے آپ کو ڈھونڈتا رہ جاتا ھے کہ میں کون ھوں (?Who am i) اسے اپنے والدین سے پتہ چلتا ھے کہ ہم بھٹی، مغل، لنگاہ، سید، جام اور ناجانے کیا کیا ھوتے ہیں اور انہی قوموں میں کسی کو کمتر اور برتر سمجھا جاتا ھے اور احساس دلایا جاتا ھے کہ فلاں قوم بےکار اور کمتر ھے چاھے اس کے باشندے جتنے بھی قابل اور ایماندار ھوں۔ یہ بیڑی آگے چل کر سرائیکی، پنجابی، سندھی، پٹھاں اور بلوچ کی شکل اختیار کرلیتی ھے۔ اسی بیڑی کے زیر اثر آکر ھزاروں نوجوان وڈیروں اور قبائلی سرداروں کے نعروں کا شکار ھوکر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور گنوا رھے ہیں۔

ہم جب اتنی شناختوں کے ساتھ پروفیشنل لائف میں پہنچتے ہیں تو کنفیوژن کا انبار ہمیں ادھ منہ کرچکا ھوتا ھے۔ صحیح کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور وسائل کی کمیابی کی وجہ سے ہم جیسا نوجوان survival دال روٹی کی دلدل کی نظر ھوجاتا ھے۔ جس نوجوان میں بڑے ھوکر لیڈر، بزنس میں اور چارٹر آکاؤنٹینٹ بننے کا پوٹینشل ھوتا ھے وہ survival کی لڑائی میں محض کلرک، کانسٹیبل، ایجوکیٹر اور حکم کی پیروی کرنے وآلہ بن جاتا ھے جو ساری عمر yes sir کہتے کہتے قبر کے خوبصورت گھر میں چلا جاتا ھے اور پیچھے سے اس کے بچے اسی قدم سے پروفیشنل لائف کا آغاز کرتے ہیں جہاں سے ان کے باپ کے چھوڑا ھوتا ھے۔ نسلوں کی نسلیں اس بقاء کی جنگ کی نظر ھوجاتی ہیں لیکن خود ساختہ غربت ختم ھونے کا نام نہیں لیتی جس کا میں خود گواہ ھوں میری امی جان نے کالج بھیجتے ھوئے جو پیسے میری جیب میں ڈالے تھے آج پندرہ سال بطور سرکاری اہلکار گزارنے کے باوجود وہی رقم میری جیب میں ھے۔ بقاء کی اس لڑائی میں انسان نہ خوشی انجوائے کرسگتا ھے اور نہ غم کو سینے میں سینچ سگتا ھے۔ ہمیں دال روٹی کیلئے اپنے خوبصورت خواب اور جوانی کا وقت زندان میں رکھنا پڑتا ھے۔

میں سمجھتا ھوں یہ شعوری استحصال کروڑوں انسانوں کے ساتھ بالخصوص برصغیر میں اس وجہ سے ھوتا آیا ھے کہ ہمیں ان بیریرز، ان دیکھے سپیڈ بریکرز اور عزت نفس کے شکنجوں نے شعوری پسماندہ بنا دیا تھا۔ جس کا مثالی حل ہمیں اسلامی شناخت جو کہ ہماری حقیقی شناخت ھے سے جڑ کر ھی مل سگتا ھے کیونکہ اسلام ہمیں مرد مومن اور مرد حق بننے کا روڈمیپ دے کر ہزاروں ان دیکھے بیریئرز سے آزاد کراتا ھے۔

اللہ پاک کے آفاقی اصولوں سے ناواقفیت نے ہمیں شاھین بننے سے روکا تھا۔ میں نے قرآن پاک، سیرت رسول ﷺ، انٹرنیشنل اسکالرز اور راہ حق سےمجاھدوں کی biographies کو پڑھ کر خود کو پہچانا تو اپنے آپ کو دیکھتا ھی رہ گیا کہ میں کیا ھوں، کیا بن سکتا ھوں اور خود کو کیا سمجھتا رھا۔ اسلام کے آفاقی اصولوں نے مجھے میری حقیقی شناخت سے شناسا کروایا ھے۔ لوگوں کے حسد اور سرد جنگوں نے مجھے میرے رب کریم کے زیادہ قریب کردیا ھے۔ میرا ایمان کامل ھے کہ انسان اگر خود کو حقیقی معنوں میں پہچان کر مقصد حیات کے ٹریک پر مستقل مزاجی سے چلتا رھے تو وہ شخص سے شخصیت کے مراحل طے کرکے لیڈرشپ کا رول پالیتا ھے۔

Check Also

Mehar o Wafa Ke Baab

By Ali Akbar Natiq