Mafias Ka Khatma Kaise Mumkin?
مافیاز کا خاتمہ کیسے ممکن؟
بطور ریسرچر آف لیڈرشپ جب میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کو مسلسل یہ کہتے سنتا ھوں کہ ملک کو اندرونی طور پر طاقتور مافیاز نے گھیرا ہوا ھے تو محو حیرت ہوجاتا ہوں۔ مجھے یہ بیان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کے سربراہ کی بجائے غیر موثر شخصیت کا لگتا ھے۔ وہ قوم کو باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں تو تبدیلی لانا چاھتا ہوں لیکن ان مافیاز کی وجہ سے نہیں لا پا رہا۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی ھے، کیا آپ اپوزیشن لیڈر ہیں، کیا آپ صحافی ہیں جو صرف خبر دینے کی ذمہ داری رکھتا ھے، جناب والا آپ تو ملک کے چیف ایگزیکٹیو Chief executive ہیں جو سب سے اونچی مسند پر براجمان ھے، آپ کی ذمہ داری ان مافیاز کو جڑوں سے اکھاڑ کر قوم کو انصاف کی آکسیجن فراہم کرنا تھی جبکہ آپ محض الفاظ کے گھمن گھیر میں الجھا رہے ہیں۔ معیشت کے اشاریے کیا کہتے ہیں، اپوزیشن کا بیانیہ کیا ھے، آپ کے مسائل کیا ہیں، کونسا ادارہ و محکمہ آپ کے ساتھ کھڑا ھے، قوم کو اس سے کوئی خاص غرض نہیں، قوم تو بس اتنا چاھتی ھے کہ انھیں ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ریاست و حکومت یقینی بنائے جو ان کا جائز مطالبہ ھے۔
قوم کو مطلوبہ مافیاز کی پوری جانکاری ہو یا نہ ہو لیکن یہ طے ھے کہ قوم نے انہی مافیاز کے ہاتھوں سات دہائیوں سے روح تک زخم کھائے ہیں، وہ تو دل و جان سے یہ چاھتے ہیں کہ ملک کے اندر سے ان تاریکی کے نمائندوں کا خاتمہ ہو لیکن جب وہ آپ کے دائیں بائیں انہی عناصر کو بیٹھا دیکھتے ہیں جو قوم کی تین نسلوں کو مسلسل گروی رکھوا کر خود عیش و عشرت کی زندگی جی رہے ہیں تو انھیں آپ اور ان میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا، کیا الیکٹیبلز کو تحریک انصاف میں ملانے کا قوم نے آپ کو مشورہ دیا تھا؟ افسوس یہ فیصلہ تو جناب کا اپنا تھا، آپ خود ہی فرماتے تھے کہ میں ادارے اتنے مضبوط کر دونگا کہ یہ وڈیرے کابینہ میں ہو کر بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اب تو آپ سربراہ مملکت ہیں تو بسم اللہ کیجئے قوم کی تو آنکھیں ترس گئی ہیں کہ وہ ملک میں انصاف کی بالادستی یعنی Rule of Law کی بہاریں دیکھیں، وہ تو چاھتے ہیں کہ وطن عزیز میں مافیاز کے مقابلے میں قانون کی قد بڑا ہو۔ آپ نے تبدیلی کیلئے قوم کو دھرنا دینے کا حکم دیا تو قوم کے جوان 126 دن تک آپ کے ساتھ ڈٹے رہے، آپ نے پانامہ کیس میں قوم کو کنوینس کیا کہ سابق حکمران کرپٹ ہیں، قوم نے لبیک کہا، آپ نے سوئس بینکوں سے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کا خواب دکھلایا قوم آپ کے ساتھ کھڑی رہی، بالآخر اقتدار کے ایوانوں تک پہچنے کیلئے آپ نے winning ہارسز کا انتخاب کیا تو قوم نے آپ کے پارٹی نشان پر یہ سوچ کر مہر لگا دی کہ عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ الیکٹیبلز کو ملانا ضروری ھے تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہونگے۔ اب آپ مسند اقتدار میں ہیں، اب قوم یہ سننے کیلئے بالکل تیار نہیں ھے کہ ماضی میں کس نے کیا گل کھلائے، کیوں کیا، کس کا کیا رول تھا یا ھے۔ وہ ہر حال میں اپنے خوابوں کی تعبیر چاھتے ہیں۔ اگر آپ نے ڈیلیور نہ کیا اور محض بلیم گیم سے وقت گزاری جاری رکھی تو وہ وقت دور نہیں جب آپ سے پارٹی ٹکٹ لینے کیلئے بھی کوئی راضی نہ ہوگا، آپ کی آواز بےاثر ہو جائے گی، آپ پھر 126 دن تو کیا محض126 منٹ کا دھرنا بھی نہ دے سکیں گے۔
آپ کو مافیاز کے حوالے سے محض لیکچر دینا زیب نہیں دیتا، آپ کو مرد میدان بن کر ان مافیاز کو زمین بوس کرنا چاھے تھا لیکن افسوس لمحہ بہ لمحہ وطن عزیز ماضی کی طرف لوٹایا جا رہا ھے، خواب مر رہے ہیں، ناامیدی کا اژدھا مسلسل ڈرا رہا ھے، توقعات حسرتیں بن کر ڈس رہی ہیں۔ آپ کے غیر فطری اتحادی جلد نئے ٹھکانے تلاش کر لیں گے اور آپ جب واپس لوٹیں گے تو آپ کی آواز پر لبیک کہنے والے انگلیوں پر گنے جا سکیں گے۔ تاریخ گواہ ھے کہ ادھار طاقت لےکر کسی لیڈر کو عزت اور قوم کو تبدیلی نصیب نہیں ہوئی۔ آج کے ابھرتے چائنہ کی بنیادوں میں ماؤزے تنگ جیسے وژنری Visionary لیڈر موجود تھے، ایشین ٹائیگرز کی roots باکردار لیڈرشپ تھی۔ طیب اردگان سے لےکر نیلسن منڈیلا تک، ماؤزے تنگ سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر تک، مہاتیر محمد سے لی کو آن تک سب نے Vision کو اپنی بنیاد بنایا، پھر اسی وژن کے مطابق خود کو trustworthy، Statesmen بنایا جن کا قول و فعل ایک تھا، جنہون نے عظیم وژن کے مطابق اسٹیٹس کوء کی بنیادیں گرا کر قوم کی اسی مثالی وژن کے مطابق تربیت کی اور اسی قوم میں سے نوجوان اور باصلاحیت لیڈرشپ کی کہکشاں تیار فرمائی جنہوں نے ان کے جانے کے بعد بھی افیونی قوم کو Emerging Super power میں ٹرانسفارم کیا۔
آپ بھی پاکستانی قوم کی امید تھے، آپ نے بھی تحریک انصاف کے نام سے تبدیلی کی بنیاد رکھی، دو دھائیوں کے اس سفر میں قوم آپ سے جڑتی گئی۔ پارٹی کا ووٹ بینک محض چند سالوں میں Compound- effect کی صورت میں کروڑوں تک پہنچ گیا۔ { مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ ایک عظیم قوم جس نے اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہتے ھوئے بائیس سال کا چیلنجز بھرا سفر طے کیا، جس نے تبدیلی کے نام پر 126 دن کا دھرنا بھی دیا، سیکڑوں جلسے بھی کئے، جان و مال لیڈرشپ پر نچھاور کئے اور جب حقیقی تبدیلی کیلئے قربانی اور لیڈنگ رول Leadership role کا وقت آیا تو لیڈر نے محض بےاصول اقتدار کیلئے اپنی قوم کے صدیوں کے خواب گروی رکھ کر اسی مافیا کے پر بیعت کرکے بےاصول الیکٹیبلز کو اپنی کابینہ کا حصہ بناکر قوم کو کنفیوژن کے بھنور میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا }۔
دنیا کا سب سے بڑا بحران ساکھ کا بحران یعنی Crisis of Credibility ھوتا ھے اور سب سے خوفناک غربت شعوری غربت ہوتی ھے۔ بدقسمتی سے عمران خان صاحب اپنے فیصلوں کی وجہ سے اسی بحران کا شکار ہوچکے ہیں، یہ وہ خوفناک جال ھے جو انھیں آہستہ آہستہ آکٹوپس کی طرح جکڑتا جا رہا ھے، یہ مسلسل بےاثر ہو رہے ہیں۔ ، poor governance کی وجہ سے قوم بدظن ہوتی جارہی ہیں، ووٹ بینک مسلسل گراوٹ کا شکار ہو رہا ھے، انصاف کی فراہمی کی یہ حالت ھے کہ عوام کو اپنے گھروں کے قبضے چھڑوانے کیلئے وزیر اعظم پاکستان سے ٹیلی فونک رابطہ کرنا پڑتا ھے جو institutional failure کا جیتا جاگتا ثبوت ھے۔
میرے خیال میں قوم کے ہر فرد کو خودترسی کا شکار ہوکر کسی لیڈر کے انتظار کی بجائے خود کو اللہ پاک کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں باکردار انسان بنا کر لیڈرشپ کی کمانڈ خود سنبھالنا ہوگی، اگر ھم نے یہ کر لیا تو انشاءاللہ لیڈرشپ کی کہکشاں تیار ہوگی جس سے لیڈرشپ کرائسسز ھمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ بااصول فرد ہی با اصول قوم بناتے ہیں اور پھر اسی مثالی قوم سے عظیم لیڈرشپ جنم لیتی ھے، یہ سفر صبر آزما ضرور ھے لیکن واحد راستہ یہی ھے جس پر چل کر ھم انشاءاللہ حقیقی آزادی کے ثمرات سے معطر ہو سکتے ہیں۔ اگر ھم نے خود کو فتح کرکے اپنے آپ کو ٹرانسفارم کرلیا تو منزل یقینی ہو جائے گی otherwise شارٹ کٹ اور دیہاڑی والا انداز فکر ہمارے اوپر کیموفلیج مکاروں اور اداکاروں کی صورت میں لیڈرشپ کا لبادہ اوڑھے مسلط ہوتا رہے گا۔ یہ فیصلہ آپ کا ھے، اگر کر لیں گے تو پالیں گے، آپ میں بھی طیب اردگان اور مہاتیر محمد پیدا ہوسکتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ھے کہ خود کو خود ساختہ خودترسی کے کینسر سے نکال کر قوت ایمانی کی شاھراہ کا مسافر بن کر حق اور شعور کا علم بلند کرنا ھے۔ یہ شعوری ارتقاء کا انقلاب ھے جس کی روح کتاب اور قلم ھیں۔ اسلامی اصول ہماری بنیاد ہیں تو انصاف کی بالادستی ھماری منزل، اس منزل کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم آپ کا اپنا ھو سکتا ھے۔ بس آپ کو کرنا یہ ھے کہ خود کو ریسرچ کی عادت ڈال کر پہلے سے زیادہ باشعور انسان بننا ھے۔ یہی اسلامی تاریخ کا سبق ھے، مکہ شریف کے تیرہ سال اور ریاست مدینہ کے دس سال اسی عظمت بھری راہ کا درس دے رہیں ہیں۔ یاد رکھیں مافیاز چاھے اندرونی ہوں یا بیرونی یہ سب بے بنیاد خوف کی طاقت کے پروپیگنڈے پر کھڑے ہوتے ہیں جسے شعوری کی روشنی کی چھوٹی سی کرن نیست و نابود کرسکتی ھے۔
آخر میں چند اشعار جو عظیم شعراء نے لکھے ہیں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
(1) سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ھے نیا دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے۔
(2) منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ھے راہی
اتنا عظیم ہوجا کہ منزل تجھے پکارے
(3) وقت کرتا ھے پرورش برسوں
حادثہ اک دم نہیں ہوتا
(4) جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بھٹک گئے۔