Kya Itna Keh Dena Kafi Hai?
کیا اتنا کہہ دینا کافی ھے؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب جو معروف موٹیویشنل اسپیکر، لیڈرشپ ٹرینر، لیپروسکوپک سرجن اور سابق پرنسپل قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور رھے ھیں کا ویڈیو پیغام سنا جس میں وہ حکومت وقت اور اپوزیشن لیڈرشپ سے عاجزانہ التماس کررہے تھے کہ سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے میڈیا میں ممبران کی خرید و فروخت پر اوپن جو بلیم گیم جاری ھے پلیز اسے بند کردیں، خدا کیلئے ھمارے بچوں کی رول ماڈلنگ برباد مت کریں۔ آپ ہمارے بڑے ہیں، پارلیمنٹ انتہائی اھم ادارہ ھے جس نے قانون سازی کرکے قوم کو مستقبل کا روڈمیپ دینا ہوتا ھے۔ یہ خوفناک انداز سیاست ھمارا اجتماعی یقین چھین رہا ھے۔ جب قوموں کی امید اور توقعات ٹوٹ جائیں تو وہ قوم productive نہیں رہتی۔
میں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کا حد درجہ احترام کرتا ہوں، میرے استاد محترم قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ ان کا رشتہ مجھے ان کے سامنے عاجز کردیتا ھے۔ میں نے سوشل میڈیا فورمز پر ان کی لائف چینجنگ گفتگو سے موٹیویٹ ہوکر اپنے اندر موجود شعوری غربت سے جنگ جیتی ھے۔ میں اسی رشتے کے توسط سے ان سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو امید ھے مجھے آپ ضرور دے دیں گے:- " آپ نے نوجوانوں کے شعوری ارتقاء کیلئے جن عناصر کو ریکوئسٹ کی ھے کہ وہ اب بس کردیں، سات دہائیاں گزر گئی، نہ ملک کو "۔ وجہ تخلیق کی طرف لایا گیا اور نہ آپ کا انداز حکمرانی بدلا۔ انتہائی ادب کے ساتھ آپ سے ملتمس ہوں کہ اگر آپ ان عناصر کا سیاسی پس منظر تاریخ سے جان لیتے تو آپ کو پوری کہانی کی سمجھ آ جاتی، آپ کو ملک میں موجود بڑے بڑے چیلنجز مثلاً غربت، بےروزگاری، لاقانونیت، اداروں کی کمزوری، ٹرانسفر و پوسٹنگ کا کھیل، جہالت، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، قرضوں پر کھڑی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کا راز سمجھ آجاتا۔
آپ خود فرماتے ہیں کہ ھمیشہ big why ڈسکور کیا کرو، یعنی ہر کام کے پیچھے چھپی نیت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ھے۔ جناب والا، وطن عزیز کی تمام سیاسی پارٹیوں میں شامل یہ عناصر جنہیں جدید دنیا Electables کے نام سے جانتی ھے۔ یہ اس وجہ سے الیکٹیبلز کہلائے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے حلقوں constituencies میں ریاستیں قائم کی ھوئی ہیں، انتظامی امور چلانے والے سرکاری اہلکار انہی کے مرہون منت رہتے ہیں کیونکہ شعوری غربت کی وجہ سے ان کا ووٹ بنک محفوظ رہتا ھے، یہ خوف اور طاقت سے معاشرے کو جکڑ لیتے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت اقتدار میں آنے کیلئے انہی کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ ملٹری ڈکٹیٹر آئے یا سول آمر یہ سب کی ضرورت رہے۔ حتی کہ تبدیلی سرکار کو بھی پاور میں آنے کیلئے اسی ادھار طاقت پر بھروسہ کرکے اپنے Vision پر کمپرومائز کرنا پڑا۔ ان کی جڑیں پاکستان کی عمر سے بھی بڑی ہیں۔ ان کے آباؤاجداد Unionist پارٹی کا حصہ تھے جو Divide & rule کی پالیسی چلاکر قوم کو ہجوم میں بدلتے رھے اور آج یہی اسٹریٹجی انہوں نے اپنائی ہوئی ھے۔ وہ کب چاہیں گے کہ ملک میں جمہوری روایات کی پاسداری ہو، ادارے مضبوط اور Rule of Law یقینی ہو، سیاسی استحکام آئے، معیشت آزاد اور مضبوط ہو۔ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جس دن ملک میں گڈ گورننس کے ذریعے آئین و قانون کی پاسداری ھوئی اسی لمحے یہ بےروزگاری ہو جائیں گے۔ عوام کا شعوری پسماندہ رہنا ہی ان کی طاقت ھے۔ یہ اندھیرے کے سوداگر ہیں، انہیں شعور سے خوف آتا ہے۔ قوم کے ہجوم بننے اور اداروں کی کمزوری میں ان کی بقاء پوشیدہ ھے۔
میرا دل حقیقی معنوں میں اس وقت دکھا جب آپ نے ویڈیو کلپ میں فرمایا کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مجھے سیاست کی سمجھ بوجھ ھے۔ بس میں چاہتا ہوں کہ آپ اب بلیم گیم بیسڈ پروپیگنڈہ بند کر دیں۔ میرا آپ سے سوال ھے کہ سر وہ کیوں بلیم گیم پروپیگنڈہ بند کریں گے جبکہ اسی میں ان کی نسلوں کی بقاء کا راز مضمر ھے۔ مشہور یونانی فلسفی سقراط فرماتے ہیں: " جب ہم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں تو مفاد پرست عناصر اسی سیاست کے پلیٹ فارم کا استعمال کرکے ھم پر حکمرانی کرتے ہیں"۔
معذرت کے ساتھ گوش گزار ہوں کہ جب آپ جیسا دانشور انسان بھی یہ فرمائے گا کہ میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تو اس پیراڈائم کے نتیجے میں جو gap پیدا ہوگا وہ compound effect کے ذریعے ہمیں پاور کوریڈور سے بیسیوں میل دور کر دے گا اور یہی ھم سب کے ساتھ ہوتا آیا ھے، ہو رہا ھے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ھم حقیقی معنوں میں اس دنیا میں آنے کا مقصد حیات سمجھ کر لیڈرشپ کا جھنڈا خود تھام نہیں لیتے۔ آپ تو ماشاءاللہ خود لیڈرشپ پڑھاتے ہیں اور بہترین دانشور ہیں۔ آپ کا سیاست سے اتنا الرجک ہونا خود ایک بڑا سوالیہ نشان ھے۔ میرے خیال میں ھم جب تک خود اور اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، بنکر، آرکیٹکٹ اور دیگر فیلڈز میں بہترین پروفیشنلز بننے کے ساتھ ساتھ ٫٫ مثالی سیاستدان، ، بننے کا خواب Vision کی big picture اپنے مائنڈ میں create نہیں کرتے اس وقت تک ہم حقیقی آزادی سے معطر نہیں ہوسگتے۔
جب تک ھمارا سیاسی ارتقاء نہیں ہوپاتا اس وقت تک ھم اپنے بنیادی حقوق کا بھی تحفظ نہیں کرسکتے۔ میں حیران ہوں کہ آخر ھم سب کو " پاور کوریڈور"سے اتنی الرجی کیوں ھے۔ اکثر معاشرے سے آوازیں آتی ہیں کہ ھم سیاست، پولیس، میڈیا، پٹواری، واپڈا، کسٹم، انکم ٹیکس، وکالت میں نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں بدعنوانی کا عروج ھے۔ بھائی جان باقی پیچھے رہ کیا جاتا ھے، اگر آپ خود کو شریف سمجھتے ہوئے ان طاقتور محکموں کو جوائن نہیں فرمائیں گے تو پھر کسی نہ کسی کو تو یہ خلا پر کرنا ھے۔ ھونا تو یہ چاھے تھا کہ آپ اگر شریف اور ایماندار انسان تھے تو خود کو پیش کرکے طاقت اپنے ہاتھ میں لےکر انسانیت کا درد بانٹتے۔ مشہور ضرب المثل ھے: " یہ دنیا ایک خطرناک جگہ بن چکی ھے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ برے برائی کر رھے ھیں بلکہ اس کی وجہ یہ ھے کہ خود کو اچھا کہنے والے سب کچھ دیکھ رہے ھیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر رھے"۔
ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب آپ ماشاءاللہ نوجوانوں کی ذہن سازی، کردار سازی اور پروفیشنل ڈیویلپمنٹ پر بہترین کام کررہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو دی گئی تجاویز جو U tuber کانفرنس میں آپ نے دیں قابل تحسین تھیں لیکن کہانی اس وقت شروع ہوگی جب ہم اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت اس عظیم وژن کے ساتھ کریں گے کہ ھمیں پروفیشنلز بننے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹیرینز بھی انشاءاللہ بننا ھوگا۔ آج سوچ اور Vision کا بیج بوئیں گے تو ہی بیس پچیس سال کا سفر طے کرکے مثالی سیاستدانوں کی کہکشاں انشاءاللہ تیار ہوگی جن کی انسان دوست پالیسیوں کے نتیجے میں وطن عزیز انشاءاللہ اسلامی فلاحی ریاست بنے گا۔