Hoga Wohi Jo Meri Chahat Hai
ہو گا وہی جو میری چاہت ہے
مفہوم حدیث قدسی ہے: اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے، اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تم نے سپرد کردیا ،خود کو اس کے جو میری چاہت ہے ،تو میں بخش دونگا تجھے ،وہ بھی جو تیری چاہت ہے ،اور اگر تو نے نافرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے ،تو میں تھکا دونگا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے، اور ہوگا وہی جو میری چاہت ہے، ،آفاقی اصول انسان سے بھی بڑی تاریخ رکھتے ہیں۔ رب کریم نے کائنات کی تخلیق بہترین آفاقی اصولوں پر فرمائی۔ جب سے دنیا بنی ہے ۔کائنات کی ہر چیز انہی اصولوں کے دائرہ میں رہ کر پرفارم کر رہی ہے، اور اسی میں اس کی بقاء کا راز پنہاں ہے۔
جب بھی انسان نے اِن اصولوں کا خوبصورت دائرہ توڑنے کی کوشش کی ہے، اپنی بقاء ہی کھو بیٹھا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کا بنیادی تقاضا ہی یہ ہے ،کہ رب کریم نے انسان کو power of choice اور free will کا جو مثالی اختیار دیا ہے ،اسے یونیورسل پرنسپلز کی روشنی میں استعمال کرنا ہوتا ہے ،جس کا عملی شعور ایک لاکھ چوبیس ہزار حضرت انبیاء کرام علیہ السلام نے بطور رول ماڈل اپنی اپنی قوم کو عطا فرمایا۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفٰی ﷺرہتی دنیا تک پوری انسانیت کیلئے بہترین اسوہ حسنہ مقام رکھتے ہیں ،جن کی زندگی سے سیکھ کر انسان زندگی کے ہر پہلؤوں میں مثالی انسان بن سکتا ہے۔
اگر انسان رب کریم کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لے ،تو اسے وہ بھی عطا فرما دیا جاتا ہے ،جو اس کی چاہت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نافرمانی کرنے پر وہ اپنے ہی بے اصول فیصلوں کی نظر ہوجاتا ہے، اور یہی آج کے جدید انسان کا المیہ بن چکا ہے۔آپ دنیا میں موجود کسی بھی خطے اور ملک پر فوکس کرلیں آپ کو فرد سے فرد، قبائل سے قبائل، قوم سے قوم اور ملکوں کے درمیان ہر لمحے جاری سرد جنگ کا اندازہ ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل انقلاب نے جدید دنیا کو واقعی گلوبل ویلج بنا دیا ہے ،لیکن صرف اور صرف سہولیات کی حد تک جبکہ آفاقی تعلیمات سے دوری نے اسے روحانی طور پر معذور بنا دیا ہے۔
جب ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہو رہا ہو، اور ساتھ ساتھ انسانیت ارتقائی زوال کا شکار رہے، تو ہر نئی ایجاد انسانیت کی گود اجاڑنے کا باعث بنتی ہے۔ یورپ سائنس و ٹیکنالوجی میں عروج پا کر بھی اپنے ہی خنجر سے خودکشی کر چکا ہے۔ پاکیزہ رشتوں کا تقدس پامال کرکے معاشرے اپنا Survival کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکی پولیٹیکل پیراڈائم میں ہونے والی خوفناک کشمکش اور کیپٹل ہل پر عوامی یلغار محض Ice-Berg محسوس ہو رہی ہے۔ یہی صورتحال عرب بادشاہتوں کی ہے۔ غلبے کی ذہنیت نے انسان کو انسانیت سے دور کر دیا ہے۔ آج اقوام متحدہ جیسا انٹرنیشنل ادارہ مذاق بن چکا ہے۔ طاقتور کے سامنے اس کی قرار دادوں کی حیثیت محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہو رہی ہے۔
اس ادارے نے قوموں اور ملکوں میں consensus ڈویلپ کرکے امن کو یقینی بنانا تھا ،مگر افسوس کھوکھلی بنیادیں بڑی تیزی سے عالمی سقوط کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ انصاف انسانیت کی روح اور سب سے بڑی binding force ہے۔ انصاف وہ شاہراہ ہے جس سے گزر کر امن و خوشحالی کی منزلیں سلام پیش کرتی ہیں۔ مثالی انصاف یہ ہے ،کہ انسان کمال عروج پاکر بھی عاجز اور دستیاب رہے۔ اس کو پوٹینشل تک grow کرتا ہے ،جب وہ اپنا The best انسانیت کا درد بانٹنے کیلئے کرتا ہے۔ آج پوری دنیا میں پایا جانے والا خوفناک اضطراب اور انسانوں کے درمیان بداعتمادی کی وسیع خلیج اس بات کا ثبوت ہے کہ محض مادی ترقی انسان کو امن و سکون نہیں دے سکتی۔
رب کریم سے حقیقی معنوں میں تعلق اور آفاقی پیغام کے مطابق اجتماعی گرومنگ اس دنیا کو خوشیوں کا مسکن بنا سکتی ہے۔ دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنا زوال کے گڑھوں میں غرق کردیتا ہے ،اور بالآخر شکست مقدر بنتی ہے۔ اسی منفی رویے کے زیرِ اثر جدید دور کا انسان ذہنی صحت کے لحاظ سے غاروں میں رہنے والے انسان سے بھی پسماندہ ہے۔یقیناً رب کریم کی چاہت نے ہی غالب آنا ہوتا ہے۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔