Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Haqiqi Tabdeeli Ki Bunyad

Haqiqi Tabdeeli Ki Bunyad

حقیقی تبدیلی کی بنیاد

"ھم نے تو ھر ایک کو آزما کر دیکھ لیا ھمارے حالات نہیں بدلے" یہ وہ سوال تھا جو شہر کی ایک پڑھی لکھی اور درد دل رکھنے والی شخصیت نے اٹھایا جو نشتر کالج میں موجود تھے۔ میں نے اپنے قابل احترام استاد پرنسپل صاحب سے اس سوال کا جواب دینے کی اجازت چاھی جو دے دی گئی۔

خالق کائنات نے زندگی میں حقیقی کامیابی کیلئے کچھ آفاقی اصول وضع فرمائے ھیں جن کو اپناکر ھی انسان اس دنیا میں خوشحالی اور امن پاسگتا ھے۔ اس عظیم شاھراہ کا آغاز فرد کے بدلنے سے ھوتا ھے اگر فرد اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں پہچان کر قدرت کے عطا کئے گئے پوٹینشل کا استعمال اپنے ایریا آف انفلیونس(جس میں وہ تبدیلی کا اختیار رکھتا ھے)میں رہ کر کرلے تو نہ صرف اس دنیا میں ایک عظیم فرد کا اضافہ ھوجاتا ھے بلکہ اس کے بدلنے سے معاشرے پر بھی اس کا Positive impact پڑتا ھے۔ اصل میں تبدیلی کا حقیقی راستہ INSIDE-OUT ھے یعنی اندر سے تبدیلی کا آغاز ھوتا ھے جس میں فرد کو اپنی سوچ، عادات، رویہ اور کردار پر کام کرناپڑتاھے جس کو Paadigm-shift کہتے ھیں یہی وہ شاھراہ ھے جس میں فرد تبدیلی کیلئے خود کو پیش کرتا ھے جو اپنے آپ سے شروع ھو کر Compound-effect کے ذریعے پوری دنیا کو متاثر کرسکتی ھے جس کی بہترین مثال ھمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ ھیں جنہوں نے کس طرح اپنے آپ کو زندگی کے پہلے چالیس سال میں صادق وآمین کے طور پر پیش کیا جس کی پوری انسانی تاریخ گواہ ھے نبوت کے اعلان کے پہلے تیرہ سال پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ھیں کہ کس طرح ایک عظیم مشن کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسگتا ھےجس میں بہترین اصول(ایک عظیم مقصد حیات کا ھونا، اس مقصد حیات کے مطابق اپنے آپ کو باکردار بنانا، مستقل مزاجی، صبر، یقین، ھمت، جذبے، فوکس، ایک بہترین ٹیم تشکیل دینا، مقصد کیلئے قربانی، انسانیت کا درد اور اس کا عملی مظاھرہ لیڈرشپ کی صورت میں پیش کرنا)اس سفر میں حقیقی طاقت بنتے ھیں جس کی گواھی مائیکل ھارٹ نے بھی دی اور آج کی جدید دنیا بھی انسانیت کو حسد، جنگوں، ظلم، بغض اور منافقت کے شعلوں سے بچانے کیلئے انہی آفاقی اصولوں کی طرف لوٹ رھی ھے جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی اور جس کو مکمل آپ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا۔

اگر ھم واقعی اپنے حالات بدلنا چاھتے ھیں تو ایسا ممکن ھے بس ایک عظیم فیصلہ لینے کی ضرورت ھے کہ فرد اپنے آپ کو کمفرٹ زون (Comfort-zone)سے نکال کر آفاقی اصولوں کے مطابق اپنی پرسنل گرومنگ کے ذریعے اپنے آپ کو مہنگا بنا کر معاشرے کی بھلائی کیلئے سستا کردے تو معاشرہ واقعی میں بدل سگتا ھے جس کیلئے مکہ شریف کے تیرہ سال جیسی عظیم قربانی تو دینا ھوگی جس کیلئے The law of cultivation سے مدد لی جاسگتی ھے ورنہ یہ جلدبازی، اپنے آپ کو بدلے بغیر تبدیلی کی خواھش اور قول وفعل میں تضاد ھمارا سفر لمبا کردے گا۔

ھمارے استاد قاسم علی شاہ صاحب فرماتے ھیں کہ ایک شخص کے اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں بدلنے سے ایک نئے زمانے کا آغاز ھوسکتا ھے جس کی بہترین مثالیں آج کے دور میں قائد اعظم سے لے کر مہاتیر محمد تک، مارٹن لوتھر سے لےکر مادام کیوری تک، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے لے کر عبدالستار ایدھی تک، طیب اردگان سے لے کر لی کوآن تک، حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر سر قاسم علی شاہ تک اور فیض حسن سیال سے لے کر قیصر عباس تک بہترین مثالیں موجود ھیں جنہوں نے کسی دوسرے کو بدلنے کی بجائے اپنے آپ کو ان آفاقی اصولوں کے مطابق ڈھالا تو وہ آج پورے زمانے پر impact ڈال رھے ھیں۔ یاد رھے کہ سارا عمل چند لمحوں میں وقوع پزیر نہیں ھوا بلکہ کئی سالوں کی قربانی کا نتیجہ ھے۔ اگر کسی کے حالات نہیں بدلے تو اس کی وجہ بھی وہ خود ھے کہ اس نے اپنے آپکو شعوری طور پر نہیں بدلا۔ قرآن پاک میں حقیقی کامیاب کی واضع گائیڈلائن موجود ھے: "اور انسان کیلئے وھی کچھ ھے جس کی وہ کوشش کرتا ھے"۔

پاکستان میں ستر سال میں حقیقی تبدیلی اس لئے نہیں آسکی کہ یہاں کی اکثریت اپنے آپ پر یقین ھی نہیں رکھتی، وہ اپنے آپ کو لیڈرشپ کے رول کیلئے پیش کرنے کی بجائے اندھی تقلید اور ووٹر کے روپ میں دیکھتی ھے اور ووٹر بھی وہ جس کا حقیقی معنوں میں کوئی Vision نہیں ھے وہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے بے معنی مفادات کیلئے sale کردیتا ھے اسی کمزور سوچ کا فائدہ اٹھا کر جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار انھیں کے کندھوں پر سوار ھوکر "ان کو کمزور رکھو اور حکومت کرو"کی پالیسی کو اپناکر ان کا استحصال کررھے ھیں حالانکہ تاریخ گواہ ھے کہ اگر کوئی فرد، خاندان اور قوم حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے مفادات سے آزاد کراکر میدان عمل میں پیش کرئے تو فطرت کی ساری طاقتیں اس کے ساتھ آکر کھڑی ھوجاتی ھیں کہ آپ انشاءاللہ کامیاب ھوں۔ تحریک پاکستان اس عظیم جذبے کا منہ بولتا ثبوت ھے آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ھے کہ فرد اپنے آپ کو فالتو تصور کرنے کی بجائے اپنے آپ کو لیڈرشپ کے پیراڈائم میں دیکھے اور اپنے حقیقی منصب (اللہ پاک کا نائب ھونا)کو پہچانے اور ساری دنیا کی بھلائی کیلئے اپنے آپ کو پیش کرئے ورنہ شارٹ کٹ والی سوچ اسے زوال کے پاتال میں پہنچا دے گی۔

Check Also

Makhloot Mehfil

By Teeba Syed