Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Hame Juzvi Shanakht Se Kya Mila?

Hame Juzvi Shanakht Se Kya Mila?

ہمیں جزوی شناخت سے کیا ملا؟

نظریہ کسی بھی قوم کی ڈائریکشن طے کرتا ہے۔ اس کے اندر طاقت، جذبے، موٹیویشن، ہمت اور حوصلے کا وہ جہاں آباد ہوتا ہے جس کا احاطہ وژن کی آنکھ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ بغیر نظریے کے قوموں کا نصیب اس عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہوں یا جسے کمزور بنیادوں پر کھڑا کیا جارہا ہو۔ نظریہ شناخت کی روح ہوتا ہے۔

مسلم امہ کے فرد کی حیثیت سے میری پہچان ایک عظیم قوم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کیونکہ جب میں خود کو مسلم امہ کا فرد تصور کرتا ہوں تو میرے اندر عظیم شناخت ابھرتی ہے۔ اس شناخت کی بنیاد ایک عظیم نظریہ ہے جسے اسلام کہتے ہیں۔ جب تک مسلمان اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی انفرادی، معاشی، روحانی اور سیاسی زندگی پر کاربند رہے عالمی منظرنامے پر دنیا انھیں عظیم لیڈرشپ کے ٹائٹل سے یاد کرتی رہی۔ عائلی زندگی سے معیشت کے میدان تک، عالمی تعلقات سے داخلی معاملات تک، ریسرچ سے فیصلہ سازی تک دنیا مسلمانوں سے گائیڈلائن لیتی رہی۔

صرف قرطبہ شہر میں 80ہزار دوکانوں میں 20ہزار دوکانیں کتابوں کی تھی۔ خطبہ حجتہ الوداع انسانی حقوق کا مثالی چارٹر مانا جاتا ہے۔ یہ تحفہ پوری دنیا کوہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ بوعلی سینا نے میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھی۔ الخوارزمی، ابن الہیشم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم عظیم لیڈروں، سائنسدانوں اور اسکالرز کی ایک کہکشاں آباد ہے جو اسلامی نظریے کے حقیقی معنوں میں سفیر تھے۔ جدید یورپ کی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی انہی اہل فکر کی مرہون منت رہی جبکہ مسلم امہ پر ملوکیت کی سیاہ پرچھائیاں چھا گئیں جس نے امہ کو عظیم قوم سے ہجوم در ہجوم، گروہ در گروہ تقسیم کر دیا۔

سیکڑوں سالوں سے مسلم معاشرے پر گدی نشینوں، جاگیرداروں، وڈیروں، قبائلی عمائدین اور بےاصول سرمایہ داروں کا راج ہے جنھوں نے امہ کو ارتقائی ٹریک سے ڈی ٹریک کرکے شعوری معذور بنا دیا ہے۔ آج دنیا کی بیالیس ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کہکشاں میں اور پہلی سو انٹرنیشنل یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی Zeroہے۔ جیک ماء (China)اور جیف بیزوف (USA)دنیا کے کامیاب ترین بزنس مین ہیں جن کا سارا فوکس آن لائن ٹریڈنگ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیٹا بیسڈ ہے۔ ایمیزون اور علی بابا E commerceکے بڑے پلیٹ فارم ہیں جن سے ٹریلین ڈالرز کا بزنس ہوتا ہے۔

یہ ساری ڈویلپمنٹ innovation، انتھک محنت اور بااصول لیڈرشپ پر baseکرتی ہے۔ اتحاد ہی حقیقی طاقت ہوتا ہے۔ مغربی ممالک جو سیکڑوں سالوں تک ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں رہے، انھوں نے ماضی سے سبق سیکھ کر خود کو یورپی یونین کی لڑی میں پرو کر امن کے پھول کھلائے۔ اس ڈویلپمنٹ کے نتیجے میں وہ جدید دنیا کو لیڈ کررہے ہیں جبکہ مسلمان جزوی شناخت میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ یہ شناخت پاکستانی، ملائشین، ترکش، انڈونیشئن، سعودی، قطری اور ناجانے کیا کیا بن کر ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔

اس جزوی شناخت نے مسلمانوں کو لیڈرشپ کرائسز کا شکار کرکے عالمی کھلاڑیوں کے در کا دربان بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ترکش لیڈرشپ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، ایران کی عرب سے نہیں بنتی۔ اس مائنڈ سیٹ نے مسلمانوں کو عالمی چراگاہ بنا دیا ہے۔ اگر مسلمان ہجوم سے قوم بننا چاھتےہیں تو انھیں اسلام کے آفاقی نظریے کی پیروی کرکے یکجان ہونا پڑے گا۔ یہی وہ راز ہے جو ہمیں فرقہ واریت، نسلی تعصب اور سرد جنگ سے بچا کر انشاءاللہ فولادی شناخت دے سکتی ہے ورنہ ہمارے دشمن ہم پر ویٹو پاور، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ہتھوڑا چلاکر ہمیں بےنام کردیں گے۔

شاعر مشرق نے کیا خوب ترجمانی فرمائی ہے:

افسوس صد افسوس شاہین نہ بنا تو

دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin