Hamare Role Model
ھمارے رول ماڈل
ہمیں اکثر طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم پر تو وڈیرے، سردار، گدی نشین اور بادشاہ حکومتیں کرتے رہے ہیں، تمہارے پاس تو مثالی رول ماڈل ہی نہیں ہیں، جن کو آپ فالو کرکے اپنی سمت کا تعین کرسکو۔ میرے خیال میں جو ہمارے بارے میں ایسا زاویہ نظر رکہتے ہیں وہ یقیناً sense of history سے نابلد ہیں، وہ اگر سمجہتے ہیں کہ وہ ہمیں سرحدوں کے اندر قید رکہ کر ہمیں شعوری بونا بنا دیں گے ،تو ہم انہیں بتائے دیتے ہیں، کہ وہ شدید ترین مغالطے میں مبتلا ہیں، اگر تمہارے اندر سننے کا حوصلہ ہے تو پہر سنو: الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام آفاقی مذہب ہے، دین اسلام کی عالمگیریت کے طفیل ہر مسلمان کے رول ماڈل بہی یقیناً آفاقی ہیں۔
ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں طے شدہ سرحدوں کا یقیناً احترام کرتے ہیں ،لیکن ہم اپنے رول ماڈل چننے کیلئے اس حدبندی کے پابند نہیں۔ یہ کائنات آفاقی ہے، ہمارا نظریہ بہی آفاقی ہے، تو پہر ہماری مثالی شخصیات کیسے سرحدی ہوسکتی ہیں۔بطور مسلمان میرے رول ماڈل محسن انسانیت، فخر کائنات رحمتہ اللعالمین سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفٰی;ﷺ کی ذات گرامی ہیں، زندگی کے جس پہلو کی بہی گائیڈ لائن مجھے چاہیے ہوتی ہے وہ اس عظیم در سے مل جاتی گی۔ میرے آقا دو جہاں حضرت محمدﷺ بطور بیٹا، باپ، دوست، تاجر، جرنیل،معیشت دان، حکمران، جج الغرض زندگی کےہر زاویے میں بہترین رول ماڈل پوری انسانیت کی رہنمائی فرماتے ہیں۔
عظمت اسے کہتے ہیں جس کا اقرار مخالف بھی;کریں۔ مشہور یورپین رائٹر مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتابThe 100 influential personalities in the woمیں acknowledge کیا ہے کہ روئے زمین پر بنی نوع انسان میں جس عظیم شخصیت نے زندگی کے ہر پہلؤوں کو بطور نمونہ حقیقی گائیڈ لائن فرمائی ہے وہ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات مبارکہ ہیں۔ میں پاکستانی شہری ضرور ہوں مگر میرا عقیدہ و ایمان مجھے وسعت عطا فرماتا ہے۔ جب میں نے ایثار کرنا ہوتو میں حضرت ابوبکر صدیق رضہ کی زندگی سے گائیڈنس لیتا ہوں، میری عدل پر نظر پڑتی ہے، تو مجھے حضرت عمر فاروق رضہ پورے قد سے کھڑے نظر آتے ہیں۔جب سخاوت پر معیار چاہئے ہوتا ہے تو مجھے حضرت عثمان غنی رضہ انسپائر فرماتے ہیں ۔
اور جب میں شجاعت کیلئے move کرتا ہوں ،تو شیرخدا، حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بطور رول ماڈل مجھ;ناچیز کی رہنمائی فرماتے ہیں ،اور جب میں نے بطور entrepreneur تاجر اور مثالی پروفیشنل بننا ہوتا ہے تو مجھے حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی کہکشاں بےسمت نہیں ہونے دیتی۔ جب مجھے سمجھوتوں کے پہاڑ اور قربانی کے سمندر میں سے کسی ایک کو چننا ہوتو میں ہمیشہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت بھری لائف کی طرف نظریں دوڑاتا ہوں، واقعہ کربلا مجھے ہمیشہ اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔حضرت خالد بن ولید رضہ مجھے ملٹری اسڑیجٹجی میں ہمیشہ بطور مینٹور گائیڈ فرماتے ہیں۔
میرے بزرگوں کی عظیم داستانیں مجھے ہمیشہ انسپائر اور موٹیویٹ فرماتی ہیں۔کسی بھی دور میں میرے پاس رول ماڈلز کی کبھی کمی نہیں رہی، کس کس کا ذکر کروں سارے ہی محترم ہیں۔ حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ سے لےکر حضرت داتا گنج بخش ؒ تک، حضرت عبدالقادر جیلانی رحہ سے لےکر شاہ شمس سرکار تک، شاہ ولی اللہ سے لےکر سر سید احمد خان تک، قائد اعظم سے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ تک، حضرت عبدالستار ایدھی سے تحریک پاکستان کے شہیدوں اور غازیوں تک، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بابا اشفاق احمد، بابا عرفان الحق، ڈاکٹر اسرار احمد، طیب اردگان، مہاتیر محمد، ذوالفقار علی بہٹوڈاکٹر محمد مرسی شہید، قاسم علی شاہ، قیصر عباس، فیض حسن سیال، عارف انیس ملک، قدرت اللہ شہاب تک ان گنت ہیروز ہیں۔
جن کی زندگیوں سے ملے اسباق مجھے اللہ پاک کے کرم سے روحانی طور پر طاقتور بناتے ہیں، میں ان سے شعوری ارتقاء کا سبق پاتا ہوںالحمدللہ اسلام اپنے ماننے والوں کو پوری کائنات سے دانش کے موتی اکٹھے کرنے کا حکم فرماتا ہے۔ ہمیں غزوہ بدر میں گرفتار غیر مسلم قیدیوں کو علم سکھانے کے حوالے سے دیا گیا پیکج اور اس میں چھپی حکمت بھی یاد ہے اور ہمیں قرآن پاک کا حکم اقرا بھی یاد ہے۔ میں نے ہمیشہ اسلام کے اسی فرمان کہ مومن اپنے عصر کے سائے;جیتا ہے، علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لو;، کو فالو کرتے ہوئے امریکن رائٹرز John C Maxwell،اسٹیفین آر کوئے، ٹونی رابنز، نپولین ہل، رابن شرما، Shiv khera، بل گیٹس، مارک زکر برگ، Simon sinek اور چائنیز فلاسفر کنفیوشس اور جیک ماءکو پورے فوکس سے پڑہا۔
اور ان سے بھی اسٹیفڈیجیٹل دور میں کارپوریٹ ورلڈ کی حکمت عملیاں سمجھی اور سیکھیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی انسانیت جن خطروں سے دوچار ہے، معاشی، سماجی و سیاسی بنیادوں پر قوموں اور ملکوں کے درمیان ڈائریکٹ اور پراکسی وارز کا جو فساد جاری ہے، غلبے کی جس ذہنیت نے خاندانوں سے اداروں تک، قوموں سے ملکوں تک کو جس غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کردیا ہے اس کا حقیقی بنیادوں پر حل اسلام کے آفاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے ممکن ہے۔ یہ دنیا اللہ پاک کی بستی ہے اور مخلوق کنبہ، اگر بستی اور کنبے میں امن و خوشحالی چاہیے تو یقیناً اللہ پاک کے آفاقی قوانین کو سیرت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بطور چارٹر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ ہر اُٹھتا قدم ہمیں بےسمت کردے گا۔