Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Fifth Generation War Aur Hamare Rawaiye

Fifth Generation War Aur Hamare Rawaiye

ففتھ جنریشن وار اور ہمارے رویے

وطن عزیز کے مایہ ناز عسکری ادارے ISPR کے مطابق دشمن ہمیں ڈائریکٹ ٹارگٹ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کے ذریعے اندر سے کمزور کر کے توڑنا چاہتا ہے جس کیلئے ہر پاکستانی کو شعوری لیول پر سپاہی کا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ہم بطور قوم دشمن کی سازشوں کو کاؤنٹر کر سکیں۔

سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر ففتھ جنریشن وار کیا ہے، یہ کیسے لڑی جاتی ہے، وجوہات کیا ہوتی ہیں اور اس میں ایکٹو فورسز کون کون سی ہوتی ہیں؟

غار اور شکار سے شروع ہونے والی انسانی تہذیب ارتقائی مراحل طے کر کے آج ڈیجیٹل ایج میں داخل ہو چکی ہے۔ اسی طرح قوموں اور ملکوں کے درمیان جاری تنازعات کی شکل بھی تیر، تلوار، بارود، نیوکلیر ٹیکنالوجی سے ہوتی ہوئی آج 5GW ففتھ جنریشن وار تک آن پہنچی ہے۔ خود کو محفوظ بنانے کی خواہش اور غلبے کی ذہنیت کے ہاتھوں پوری انسانیت زخم زدہ ہو چکی ہے۔

دوسری جنگوں اور ففتھ جنریشن وار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسری جنگیں Direct attack اور گوریلا سٹریٹیجی کے تحت ملکوں کے اندر لڑی جاتی ہے جبکہ 5GW میں ڈائریکٹ حملے کی بجائے پروپیگنڈہ، فیک نیوز، میڈیا اور Divert & rule کے ذریعے مذکورہ ملک کے باشندوں کی سوشل میڈیا فورمز کے ذریعے برین واشنگ کر کے Youth کو ملکی اداروں کے خلاف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

بد اعتمادی کے کینسر کی وجہ سے اداروں اور عوام کے درمیان خوفناک تصادم جنم لیتا ہے جسے ریاست بغاوت جبکہ مزاحمتی فورسز انقلاب کا نام دیتی ہیں۔ ایسی تحریکوں کی گود سے خوف، خون، نفرت اور سقوط نکلتے ہیں۔ جب منفی جذبات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دم توڑتا ہے تو عوام، سیاستدان اور مقتدر حلقوں یعنی سب کے حصے میں پچھتاوا ہی آتا ہے جس کے ازالے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

اب ٹریلین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے عوام اپنے ہی حکمرانوں و اداروں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں؟

ہر انسان اپنی بقا کے لئے خود کو قبیلے (in past) اور ملک (Now) کے ساتھ جوڑ کر رکھنے میں کامیابی تصور کرتا رہا ہے، کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں خود کفیل نہیں ہو سکتا، اسے اپنے جان و مال کے تحفظ اور آگے بڑھنے کے لئے اجتماعی طاقت کی ضرورت ہو گی جس کی وجہ سے وہ اپنے سے بہتر کو اپنا حکمران بنانا چاہتا ہے۔ مشہور چائنیز اسکالر کنفیوشس کے خدمت میں وقت کا بادشاہ حاضر ہوا اور نصیحت طلب کی۔ کنفیوشس نے اسے بہترین حکمرانی کے راز بتلائے:

(1) ملکی معیشت کو مضبوط رکھنا۔

(2) دفاع کے لئے پروفیشنل فوج رکھنا۔

(3) انصاف کی فراہمی (Rule of law) ہر قیمت پر یقینی بنا کر عوام کا اعتماد قائم رکھنا۔

بادشاہ نے ادب سے پوچھا، جناب ان میں اگر ایک نقطہ چھوڑنا پڑے تو کس کو چھوڑوں؟

کنفیوشس نے فرمایا:- فوج کو کم کر دینا کیونکہ اگر معیشت مضبوط اور قوم کا اعتماد قائم رہا تو فوج جتنی چاہے بنا سکتے ہو۔

بادشاہ نے انتہائی ادب سے پوچھا:- اگر معیشت اور قوم کے اعتماد میں سے کسی ایک پر سمجھوتہ کرنا پڑے تو کس کو چھوڑوں؟

فرمایا گیا کہ معیشت پر step down کر لینا کیونکہ اگر قوم نے ساتھ دیا تو معیشت اور فوج دونوں دوبارہ بن جائیں گے بصورت دیگر نہ تمھیں فوج بچا سکے اور نہ معیشت۔

دس ہزار سالہ ریکارڈڈ ہسٹری گواہ ہے کہ جن قوموں نے اللہ پاک کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں اپنا گورننس سسٹم ایکٹو کیا وہ زمانے کے لیڈر کہلائے اس کے برعکس جنہوں نے اپنے خود غرضانہ مفادات کیلئے اپنی قوم کو Divide & rule اور Divert & rule کے ذریعے پسماندہ، گروہ در گروہ اور شعوری غریب رکھنے کی کوشش کی زمانہ کے فرعون انہیں نگل گئے، وہ تاریخ میں بھولی بسری کہانیاں بن کر رہ گئے۔

بد قسمتی سے برصغیر کی سر زمین صدیوں سے انصاف کی پیاسی ہے۔ یہاں پر نام نہاد اور بے اصول راجے مہا راجے، بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں، گدی نشین، جاگیرداروں اور ظالم سپہ سالاروں کا راج رہا۔ وطن عزیز کی کل عمر سات دہائیوں پر محیط ہے جبکہ اس پر حکمرانی کرنے والوں کی جڑیں کئی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں یہ یونینسٹ کہلاتے تھے، انگریزوں سے پہلے یہ مغلوں کے چاکر رہے، جدید دنیا انہیں الیکٹیبلز (Winning) کے نام سے جانتی ہے۔

ان کی سیاست کا core point اداروں کو کمزور رکھ کر معاشرے میں ہر اس ریفارمز کو روکنا ہے جس سے معاشرے میں شعوری ارتقاء کا سورج طلوع ہونے کا ڈر ہو۔ یہ اندھیرے کے سوداگر ہیں اور انہیں شعوری ارتقاء سے خوف آتا ہے۔ یہ اپنی جاگیریں اور گدیاں بچانے کیلئے ہر حد پار کرتے رہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والے مائنڈ سیٹ نے انہی الیکٹیبلز کو سیاسی طور پر طاقت دی۔

افسوس یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں بھی لاکھوں کی تعداد میں بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ جوڈیشل و پولیس ریفارمز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں کیسز پینڈنگ پڑے ہیں۔ ایجوکیشن بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ گورننس انتہائی بری ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس لیول پہ چلا گیا ہے کہ ایک پارٹی حکومت بناتی ہے تو دوسری گرانے کیلئے سازشیں اور پروپیگنڈہ شروع کر دیتی ہے جس سے نہ ختم ہونے والا بحران شروع ہو جاتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ آپ ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کمزور بنیادوں پر کھڑے ہو کر کیسے کر سکتے ہیں؟ جب سیاسی مداخلت نے ہر سول ادارے کو اپاہج بنا دیا ہو۔ سیاسی پارٹیاں ذاتی جاگیریں بن چکی ہوں، مہنگائی عروج پکڑ چکی ہو، عوام اپنے ہی اداروں کے ہاتھوں زخم زدہ ہو چکے ہوں تو ایسا ماحول دشمن قوتوں کے پروپیگنڈہ کیلئے suitable ثابت ہوتا ہے۔ جناب والا آج دفاع کا تصور بدل چکا ہے، ڈیجیٹل وار کا روایتی ہتھیاروں سے ممکن ہی نہیں۔

آج کا دفاعی ہتھیار Laptop اور ڈیجیٹل ڈیوائسز بن چکی ہیں۔ آپ قوم کو شعوری طور پر پسماندہ رکھ کر ففتھ جنریشن وار کیسے لڑ سکتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ اندر کا زخم کینسر بن کر پورے ملک کو کھا جائے ہمیں institutional reforms کے ذریعے شخصیات کے مقابلے میں انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور ریسرچ کو top priority بنانا ہو گی۔ مشہور عسکری جنرل چنگیز خان کہا کرتا تھا:جو اندر سے مضبوط ہوتے ہیں انہیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

مسلمانوں کے عظیم لیڈر حضرت علیؑ کا فرمان عالی شان ہے: کفر پر مبنی معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir