Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Dehari Darana Andaz e Fikr

Dehari Darana Andaz e Fikr

دیہاڑی دار انداز فکر

عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جن میں وژن کی شاہراہ پر چلنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ آفتاب کی طرح چمکنا انہی کا مقدر بنتا ہے جو اپنی ذات سے اٹھ کر دوسرے انسانوں کی فلاح کی مشعل اٹھاتے ہیں۔ قدرت زمانے کا مقدر انہی کے ہاتھ میں لکھتی ہے جن میں خود کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں مہنگا بن کر دوسروں کیلئے دستیاب ہونے کی ہمت ہوتی ہے۔ جنہیں عظیم وژن کیلئے اپنی کیرئیر حتیٰ کہ جان تک قربان کرنا اعزاز لگتا ہے۔ وقت انہی کے ہاتھ میں لیڈرشپ کا جھنڈا تھماتا ہے جو خود کو مسخر کرکے انسانیت کے دشمنوں کے جبڑے توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاریخ انہی کو اپنے اندر سموتی ہے جو تاریخ بدلنے کا جگر رکھتےہیں۔ روئے زمین پر سب سے بڑا انقلاب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ لائے۔ مکہ شریف کے چیلنجز بھرئے تیرہ سال حقیقی تبدیلی کی بنیاد بنے، عرب سے شروع ہونے والے انقلاب نے پوری انسانی تاریخ کا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔ حتی کہ مغرب کے عظیم اسکالر مائیکل ہارٹ کو تسلیم کرنا پڑا کہ انسانی تاریخ میں جو شخصیت معاشرت، سیاست اور روحانیت میں حقیقی انقلاب لائی وہ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات بابرکت ہے۔

وژن (Vision) لیڈرشپ کی روح ہوتا ہے جس میں وہ آفاقی طاقت ہوتی ہے جس سے قومیں غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی خوشبو سے معطر ہوتی ہیں۔ سقراط سے لےکر مارٹن لوتھر کنگ تک، نیلسن منڈیلا سے مہاتیر محمد تک، طیب اردگان سے ذوالفقار علی بھٹو تک، جاوید ہاشمی سے ڈاکٹر محمد مرسی جیسے عظیم شخصیات کی بنیادیں Vision میں تھیں جس کی وجہ سےآج بھی زمانہ انھیں مرد میدان اور men of action مانتا ہے۔

وژن کے بغیر فرد سے لےکر خاندان تک، سیاسی پارٹی سے قوم تک ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ Vision کی ضد، دیہاڑی والی اپروچ، ہوتی ہے جس میں مبتلا انسان آج کے دن کا سوچتا ہے۔ دیہاڑی والا پیراڈائم انسانوں کو خود غرض، خوفزدہ، لالچی، موقع پرست اور مکار بنا دیتا ہے۔ یہ کمفرٹ زون میں جینے والے لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنی ذات سے سروکار ہوتا ہے۔

خواتین و حضرات: ترقی یافتہ اور پسماندہ قوموں اور ملکوں میں بنیادی فرق وژن اور دیہاڑی والی سوچ کا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں growth mindset کی ہوتی ہیں جن کے شب و روز تحقیق و تدریس میں بسر ہوتے ہیں۔ جن کا وژن کئی کئی دہائیوں پر base کرتا ہے جبکہ دیہاڑی والی قومیں اور ملک تحقیق میں پسماندہ اور لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔ وہ producer کی بجائے purchaser ہوتے ہیں۔ ان کے بجٹ تک IMF کے قرضوں سے بنتے ہیں۔ ان قوموں کی بقاء سرنڈر کرنے اور خوشامد کرنے میں ہوتی ہے۔

ایسے ملک اپنی خودمختاری تک کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے قربان کردیتے ہیں۔ ایسی قومیں عالمی ساہوکاروں کی چوکھٹ پر حاضری دینا اعزاز سمجھتی ہیں۔ ایسے ملکوں کے سیاستدان بھی دیہاڑی باز ہوتے ہیں۔ انھیں ملک سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے۔ وہ اپنے بےاصول اقتدار کیلئے سمجھوتوں کی دلدل میں گرنے اور عالمی کھلاڑیوں کا yes man بننے میں فخر سمجھتے ہیں۔ ایسے موقع پرست سیاستدان قوموں کیلئے کینسر ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد کسی بھی حالت میں مسند اقتدار پر پہنچنا ہوتا ہے۔

ایسے ملکوں کی داخلہ پالیسی سے لےکر خارجہ پالیسی تک غیر یقینی کے زلزلوں کی زد میں رہتی ہے۔ زمانہ انھیں ٹشوپیپر سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ پاکستان کے مشہور کارپوریٹ ٹرینر اور Success coach جناب قیصر عباس صاحب جو ملٹی نیشنل کمپنیز کے CEO سے لےکر ملکی اداروں کی ٹاپ لیڈرشپ کو لیڈرشپ سکھاتے ہیں، ان کا تجزیہ ہے کہ پاکستانی قوم کا سب سے بڑا المیہ دیہاڑی والی سوچ ہے جس سے نکلے بغیر ہم کبھی اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکتے جس کا خواب مرد قلندر حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا۔

شاعر مشرق نے کیا خوب فرمایا ہے۔

افسوس صد افسوس شاہین نہ بنا تو

دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar