Bil Akhir Shikast Ho Gayi
بالآخر شکست ہوگی
اللہ پاک کے آفاقی قوانین میں سے ایک مشہور ترین قانون The law of cause &effect، بنی نوع انسان کو درس دیتا ہے کہ زندگی میں جیسے نتائج چاہتے ہو، اسی لیول کے بیج بونا ہونگے۔ یہ طے ہے کہ کپاس کے بیج سے کپاس کا پودا ہی اُگے گا، اسی طرح منفی سوچ اور رویے سے خوفناک فساد جنم لیتا ہے، جبکہ مثبت انداز فکر سے روشنی کی کہکشاں جگمگااٹھتی ہے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں "مجھے ساری زندگی دو لوگوں کی تلاش رہی مگر میں انہیں نہ پا سکا، ایک جو سخی ہو اور پھر غریب ہو گیاہو، اور دوسرا جو ظالم ہو اور برباد نہ ہواہو"۔
وطن عزیز کو بنے سات دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اگرچہ ہم نے بہت کچھ پایاہے، لیکن سمت اور نظریے سے روگردانی نےہمیں کنفیوژن کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ اس کے بانیوں نے اسے اسلام کے بےمثال نظریے کی طاقت سے حاصل کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کے بعد، وطن عزیز یونینسٹ کے کرداروں کی بھینٹ چڑھ گیا، جنہوں نے ذاتی مفاد اور کرسی کیلئے سازشوں کے بازار گرم کرکے، وطن عزیز کو عالمی برادری میں بےتوقیر کردیا۔
لیڈرشپ کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے میرا مشاہدہ ہے، کہ وطن عزیز کے بانی نے کھوٹے سکوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے، سول و ملٹری بیوروکریسی پر اعتماد کیا، کیونکہ ان کھوٹے سکوں کی تاریخ خود غرضانہ پولیٹکس سے بھری پڑی تھی۔ بدقسمتی سے چند بےاصول طاقتور بیوروکریٹس نے قائد کی رحلت کے بعد behind the scene رہ کر، مستقبل کی حقیقی لیڈرشپ کو کارنر کرکے، اپنی سیاسی کٹ پتلیوں کو مضبوط کرکے ڈیموکریسی کا نعرہ لگاتے رہے۔ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں کبھی کنونشنل لیگ، تو کبھی ن، ق لیگ برآمدہوتی رہیں۔
ان بیوروکریٹس نے انہی کھوٹے سکوں کو، جن کی تعداد اب سیکڑوں خاندانوں پر مشتمل ہے، کو ہر سیاسی پارٹی کا حصہ بنا کر پورے پولیٹیکل سسٹم پر سوالیہ نشان اٹھا دیا۔ جدید دنیا ان کھوٹے سکوں کو electables کہتی ہے۔ انہی کے ایما پر آج تک صحیح انداز میں institutional ریفارمز نہیں ہوسکیں، کیونکہ اداروں کا کمزور رہنا ہی ان کی فیوڈل مائنڈ سیٹ کی بقاءہے۔ یہ وہ کینسرہیں جو، ن، ق اور پی پی پی کو اجاڑ کر ان پارٹیوں کی لیڈرشپ کو پھانسیاں اور جلا وطن کروا کر، تبدیلی کی جماعت PTI کو برباد کرچکےہیں۔
مہاتیر محمد اور طیب اردوغان کو idealize کرنے والا باہمت شخص عمران خان، ان کو اپنے ساتھ ملا کر آج بےسہاراہوچکاہے۔ اس کے اتحادی جو دراصل وہی کھوٹے سکےہیں، اژدہے بن کر اسے ہنکار رہےہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے ان electables سے اب جان چھڑانا چاہ رہےہیں، کیونکہ ان کی وجہ سے ہر گزرتے لمحے میں ریاست کے اداروں نے عوام کا اعتماد کھویاہے۔ یہ طےہے کہ ان کمزور بنیادوں پر ایٹمی پاور کو عالمی برادری میں باوقار مقام نہیں دلوایا جاسکتا۔ آج hybrid war اور بیالوجیکل وار فیئر کا زمانہ ہے، جس میں تحقیق اور انصاف پر مبنی جامع انفراسٹرکچر کے بغیر survival ممکن ہی نہیں۔
اصل core پوائنٹ یہ ہے کہ ان وڈیروں، سرداروں، گدی نشینوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بےاصول بیوروکریٹس کو ڈیل کرنا اب آسان نہیں رہا، کیونکہ ان کی جڑیں roots انتہائی گہری ہوچکی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ خود سسٹم بن چکےہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ وطن عزیز میں مارشل لاء تو کئی دفعہ لگے مگر افسوس، کوریا کے جنرل پارک جیسا ملٹری لیڈر نہ آسکا، جو سرجیکل ریفارمز کرکے نظام میں موجود کینسر کو سسٹم سےہمیشہ کیلئے نکال دیتا۔
تبدیلی سرکار کی ناکامی، مستقبل میں youth اور سیاست کے درمیان بداعتمادی کی گہری خلیج پیدا کرسکتی ہے۔ بہرحال ہم نے جو بویا وہی کاٹ رہےہیں۔ اگر وطن عزیز میں آفاقی اصولوں کو فالو کرکے انصاف کو یقینی بنایا جاتا، حقیقی لیڈرشپ کی roots سے capacity buildingہونے دی جاتی، تو آج لیڈرشپ کرائسزہمیں نہ ڈرا رہاہوتا۔ حالات کے جبر بڑی تیزی سے electables اور ان کے سرپرستوں کو آمنے سامنے لارہاہے۔ آٹھارویں ترمیم کی طرف بڑھتے سائے بہت کچھ بیان کررہےہیں۔ اس ٹکراؤ کا نتیجہ بالآخر کمزور کو گیم سے آوٹ کردے گا۔
اگراس ٹکراؤ کے نتیجے میں پیداہونے والے خلا کو، حقیقی نمائندوں کی صورت میں replace نہ کیا گیا، تو نتیجہ مزید انتشار اور عدم استحکام کی صورت میں آسکتاہے، جس کو شایدہم افورڈ نہ کرسکیں۔ ورلڈ آرڈر کے زوال اور ون بیلٹ، ون روڈ جیسے شاندار منصوبوں نے عالمی ساہوکاروں کو اندر سے توڑ دیاہے، جس کا بدلہ وہ ہم سے لینا چاہیں گے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق system of governance میں ہی ہماری بقاء پوشیدہ ہے۔