Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Bad Gumani Ka Cancer

Bad Gumani Ka Cancer

بدگمانی کا کینسر

دنیا کے موثر ترین شخصیات میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ Self discovery کے ذریعے اپنی سمت، پوٹینشل اور مقصد حیات کو جان کر مسلسل کردار اور جذبے کے ذریعے اپنی انرجی کو اپنے گولز پر فوکس رکھتے ہیں جس سے ہر گزرتے لمحے میں وہ اندر سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، وہ حالات، معاملات اور معاشرے کی شکایت کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا چارج لے کر اپنے نصیب کو قرآنی احکامات کے مطابق "اور انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے" بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وہ اپنے زمانے سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اُن کی زندگی میں مثبت رویہ، گِر کر اُٹھنے کا جذبہ، تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت اور اپنے آپ کو مسلسل up date رکھ کر خود کو مہنگا بنا کر اللہ پاک کی رضا کیلئے انسانیت کیلئے وقف کرنا اُن کا مقصد حیات ہوتا ہے۔ چنگیز خان نے کہا تھا، جو اندر سے مضبوط ہوتے ہیں انہیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا"۔

اِس کے برعکس تُکے اور چَکربازی والی اپروچ والے عناصر ہمیشہ بدگمانی، منفی سوچ، تنقید برائے تنقید، گالی گلوچ، ہر چیز میں منفی پہلو کو فوکس کرنا، دھوکہ اور پروپیکنڈہ کے ہتھکنڈے استعمال کر کے معاشرے کا سکون غارت کر دیتے ہیں۔ وہ بدگمانی میں PHD ہوتے ہیں، ایسے افراد زندگی کی جنگ بغیر لڑے ہار چکے ہوتے ہیں، اُن کا مقصد دوسرے انسانوں کے حوصلے توڑنا، شک کے بیج بونا، عزت نفس کو مجروح کرنا اور یہ بتانا کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔

حالات ایسے ہی رہیں گے، کوئی تبدیلی نہیں آنے والی جیسی افواہیں پھیلانا اُن کا مقصد حیات ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تیس سال کی عمر میں مر جاتے ہیں لیکن دفنائے سَتر سال کی عمر میں جاتے ہیں، زندگی کے چالیس سال ہائے ہائے کرتے ضائع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ زمین کے سینے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ نا اُمیدی پھیلانا ان کی روز کی assignment ہوتی ہے۔

اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہمارے کان ہر طرف سے غیریقینی، کنفیوزن، خوف اور مفروضوں پر مبنی لا یعنی خبریں اور تجزیے سنتے سنتے ہمیں اندر سے بدگمان بنا چکے ہیں، سنی سنائی بات پر یقین کرنے کی عادت نے ہم سے خوشی اور سکون چھین لیا ہے، ہمارے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے کسی چیز کی کمی ہے جس سے ہماری خوشیوں کو ناشکری اور بدگمانی کے رویے نے چاٹ لیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم امن و خوشحالی سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اپنی انرجی اور فوکس کو اپنے مقصد حیات پر رکھیں، پروفیشنل اور ہوم لائف کو balance رکھیں، دوسرے انسانوں پر بھی اعتماد کریں ورنہ ہم شَک اور بدگمانی کے ہاتھوں isolate ہو جائیں گے اور دنیا انسانوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر Multi National companies کھڑی کر کے پوری دنیا کی معیشت، سیاست اور معاشرت اپنے ہاتھ میں لے لے گی اور ہم سازش، سازش، سازش کے نعرے لگاتے رہ جائیں گے۔

یاد رہے کہ سازشیں اندر سے مضبوط قوموں کا بال بیکا نہیں کر سکتیں ملائشیا، چائنہ اور ترکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور جو اندر سے کمزور ہوں انھیں کسی دشمن کی سازش کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود ہی ایک دوسرے کو چور، دھوکے باز، کرپٹ، نااہل اور بدکردار کہہ کر اپنی خودکشی کا سامان اکٹھا کر لیتے ہیں۔ قرآن پاک میں سورت الحجرات میں مثالی معاشرے کی خصوصیات میں سے بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اچھے گمان کو عبادت حسنہ قرار دیا گیا۔

اس کے علاوہ 700 سے زیادہ مرتبہ تحقیق Research کا حکم فرمایا گیا ہے۔ ہماری پوری قوم سے استدعا ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطور "بیٹا، بیٹی، والد، والدہ، خاوند، بیوی، بیوروکریٹ، بزنس مین، ٹیکنوکریٹ، پروفیشنل، ایکسپرٹ، کسان، سرکاری اہلکار، ممبر کارپوریٹ سیکٹر، سیاستدان، ممبر سول سوسائٹی، استاد، طالب علم، میڈیا پرسن، وکیل، جج الغرض جس شعبے سے بھی آپ تعلق رکھتے ہیں اپنے اپنے شعبے میں بہترین بنیں۔

وزیراعظم کا کام وزیراعظم کو کرنے دیں، آرمی چیف کا کام اُسے کرنے دیں اور استاد کا کام استاد کو کرنے دیں اور آپ اپنا کام ایمانداری اور خوش اسلوبی سے کریں اسی سے اِسلام، پاکستان، قوم، خاندان اور فرد مضبوط ہو گا انشاءاللہ۔ ورنہ بدگمانی آپ کو مایوسی اور بدحالی کے پاتال میں پہنچا دے گی۔

(ہاں اگر کوئی ایشو ہے تو تحقیق کے معیاری تقاضوں کو پورا فرمائیں۔)

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry