Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Hussain
  4. Ab Ye Larai Barhe Gi

Ab Ye Larai Barhe Gi

اب یہ لڑائی بڑھے گی

سید یوسف رضا گیلانی صاحب کی ایوان بالا میں شکست پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنا دے گی۔ آپ یقیناً حیران ہو رہے ہونگے کہ کوئی ہار کر کیسے مضبوط ہوسکتا ہے۔ بنیادی طور پر PDM گیارہ پولیٹیکل پارٹیز کا الائنس ھے جو ان کی لیڈرشپ کے بیانات کے مطابق سول بالادستی کی لڑائی لڑ رہا ھے۔ یہ الیکشن 2018 میں شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس سے شروع ہونے والی کہانی جلسے جلوسوں سے ہوتی ہوئی بالآخر سینٹ الیکشن کی شکست تک آپہنچی ھے۔ سینٹ کا الیکشن PDM نے پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ بالخصوص آصف علی زرداری کی خواہش پر لڑا otherwise مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف تو ہر صورت میں مزاحمتی تحریک پر فوکس کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔ اگر یوسف رضا گیلانی صاحب چیئرمین سینٹ بن جاتے تو لامحالہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کا رجحان مزاحمتی سیاست سے 360ڈگری زاویے پر ٹرانسفارم ہوجاتا جس سے PDM انتہائی کمزور ہوجاتی کیونکہ پیپلز پارٹی کے اسٹیک کہیں اور شفٹ ہو جانے تھے۔

مستقبل کی سیاست کا منظرنامہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو رہا ھے۔ ایک دفعہ پھر PDM کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھیں گے، زخم تازہ ھے، درد کی شدت مزید aggressive بنا دے گی، حقیقی معنوں میں پہلی دفعہ، پھر دہرا رہا ہوں پہلی دفعہ PDM کی قیادت ایک پیج پر آئے گی۔ تبدیلی سرکار کو اس شکست سے وقتی ریلیف تو یقیناً مل جائے گا، ان کی demoralization مومینٹم میں بدل جائے گی لیکن مستقبل قریب میں یہی فتح PTI قیادت کیلئے وبال جان بن سکتی ھے۔ جہاں ایک طرف ووٹ آف کانفیڈنس کے مرحلے میں عمران خان ایک دفعہ پھر اتحادیوں کی ادھار طاقت سےاعتماد کا ووٹ لےکر بھی کمزور نظر آیا ھے، وہیں عوام کی توقعات اور ڈیلیوری دباؤ پہلے سے بڑھ جائے گا۔ اب عمران خان یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں قانون سازی میں کمزور ہوں، عام آدمی تبدیلی سرکار سے ہر حال میں ان وعدوں کی تکمیل چاہتا ھے جو اس سے 2018 کی الیکشن کمپین میں کئے گئے تھے۔ اب وہ حکومت کو مزید وقت دینے کیلئے تیار نہیں ھے۔ یہی وہ burning issue ہے جس نے PDM کی مزاحمتی تحریک کو طاقت فراہم کرنی ھے۔ اگر مہنگائی، بےروزگاری اور گورننس کی یہی صورتحال رہی تو سپریم کورٹ کے حکم سے رواں سال ہونے والے بلدیاتی الیکشن کی صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔ ابھی تک عوام PDM کی تحریک کا حصہ نہیں بنی لیکن صورتحال یکسر بدل بھی سکتی ھے۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ فوری طور پر ترجیحات طے کرکے بہترین ٹیم بلڈنگ کے ذریعے عوامی ایشوز کو حل کرنا ہوگا ورنہ جیت ہار میں بھی بدل سکتی ھے۔ تاریخ گواہ ھے کہ حکومتیں ھمیشہ اپنی ساکھ پر قائم رہ سکتی ہیں۔ جس حکومت کو عوامی پذیرائی حاصل ہو اسے بیرونی حملے گرا نہیں سکتے۔ لگتا ھے ایک طرف پھر کابینہ اور بیوروکریسی میں Shuffle ہوگی۔

حکومت آدھی سے زیادہ مدت گزار چکی ھے، ہر گزرتا دن تحریک انصاف کی قیادت کا گراف گرا رہا ھے۔ ایسا لگ رہا ھے جیسے آنے والے دن پاکستان میں خوفناک سیاسی عدم استحکام کے کر آئیں گے۔ اب PDM قیادت لانگ مارچ اور دھرنے کا آپشن استعمال کرئے گی، تشدد بڑھ سکتا ھے، اداروں پر غیر جانبداری اور ڈیلیوری کیلئے دباؤ مزید بڑھے گا، غلط فہمیاں عروج پکڑ سکتی ہیں، سینٹ آپشن میں ناکامی کی وجہ سے PDM میں فیصلہ سازی کا گھنٹہ گھر میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن بن جائیں گے، پیپلز پارٹی قیادت کو صرف فالو کرنا پڑے گا اور ان کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں بچا۔ میاں شہباز شریف جتنی مرضی جیلیں کاٹ لیں اصل طاقت بڑے میاں اور مریم نواز کے پاس ہی رہے گی اور یہی ن لیگی ووٹر کا بھی پیراڈائم ھے۔ سمجھوتوں اور مفاہمت کا دور کب کا ماضی ہوچکا ھے۔ دوسروں کے خلاف استعمال ہونے والے کب کے بے آسرا ہوچکے ہیں۔ صحیح کہا جاتا ھے کہ ادھار طاقت انسان کو اجاڑ دیتی ھے، اتحاد کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومتیں ہر وقت غیر یقینی اور سیاسی زلزلوں کی زد میں رہتی ہیں، ادھار پر کھڑی قیادت کو اپنا وژن اور پارٹی مینی فیسٹو دفن کرنا پڑتا ھے، اپنے سپورٹرز سے مسلسل جھوٹ بولنا پڑتا ھے تاکہ وہ یقین رکھیں کہ لیڈر ایماندار ھے تبدیلی آکر رہے گی۔ ان تھک محنت اور مسلسل انتظار کے بعد بھی جب تبدیلی نہیں آتی تو نہ صرف پارٹی ووٹر اسٹریس میں چلا جاتا ھے بلکہ اس کا اعتماد ہمیشہ کیلئے کھو سا جاتا ھے، اسے لگتا ھے جیسے اس کے ساتھ ایک دفعہ پھر ہاتھ ہو گیا ھے، یہ اضطراب، عدم استحکام، کنفیوزن، سمجھوتے اور وژن سے U-Turn سیاسی قیادت کیلئے زوال کا سمندر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ قیادت کو کرنا ہوتا ھے کہ وژن کی شاہراہ پر چل کر مسلسل قربانیوں کا راستہ اپنا کر ابدی کامیابیاں سمیٹنی ہیں یا پھر ادھار طاقت لےکر شارٹ کٹ کے ذریعے بے اصول اقتدار لینا ھے۔ یہ طے ھے کہ بےاصول اتحادیوں کے ساتھ مل کر آپ وژن کی شاہراہ کے مسافر بن نہیں سکتے، آپ اس راستے سے اپنے مخالف سے انتقام تو لے سکتے ہیں لیکن غلط ترجیحات کی وجہ سے آخر میں زوال آپ کا مقدر ٹھہرے گا، یہی آفاقی سبق ھے۔

اب بلین ڈالرز کا سوال یہ ھے کہ سیاست کے اس کھیل میں عام آدمی کے ہاتھ کیا آتا ہے؟

کامیاب اور ناکام انسانوں میں بنیادی فرق "سوچنے اور عمل کے انداز" کا ھے۔ ناکام انسان سمجھتا ھے کہ یہ حکومتوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس کو کامیاب بنائیں، یہی وجہ ھے کہ اس کی توقعات جب ایک پارٹی، حکومت سے پوری نہیں ہوتیں تو وہ ردعمل میں دوسری پارٹی کو سپورٹ کرتا ھے، حکومت بدل جاتی ہیں لیکن اس کے حالات نہیں بدلتے کیونکہ وہ خود کو آفاقی اصولوں کی روشنی میں باشعور نہیں بناتا، وہ خود کو بدلے بغیر سارا منظر بدلنا چاہتا ھے اور جب ایسا ہو نہیں پاتا تو وہ بلیم گیم کا شکار ہوکر ھمیشہ کیلئے غروب ہوجاتا ہے۔ ایسی ذہنیت ہائبرڈ وار کیلئے ideal ہوتی ھے۔

اس کے برعکس کامیاب انسان خود کو ڈسکور کرکے سیلف وکٹری کے ذریعے خود کو بدل اپنا نصیب خود بدلتا ھے، اسے باہر کے حالات کبھی مایوس نہیں کرتے، اسے یقین ہوتا ھے کہ اگر میں خود کو بدل کر مہنگا ہو جاؤنگا تو ہر چیز میری دسترس میں آ جائے گی۔

میرے خیال میں وطن عزیز میں جاری سیاست کے کھیل سے عوام کیلئے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آ سکتی کیونکہ کھیلنے والوں کے اپنے مفادات اور مقاصد ہوتے ہیں، تماشائی خود کو کھیل کا حصہ ضرور سمجھتا ھے لیکن وہ ہوتا نہیں ھے، بدقسمتی سے یہی کچھ ھمارے ساتھ سات دہائیوں سے ہوتا آیا ھے۔ حکمران چاھے سیاسی آیا یا غیر سیاسی، عوام کے حصے میں غربت، اندھیرے، ناانصافی، مہنگائی اور لاقانونیت ہی آئے ہیں، ساٹھ کی دہائی میں بھی عوام دال روٹی کو ترس رہی تھی اور اکیسویں صدی میں بھی اشیاء خوردونوش کی کمیابی کا ماتم جاری ھے۔ گورننس کی یہ حالت ھے کہ حکومت کی طرف سے جیسے ہی ریلیف کا اعلان ہوتا ھے مارکیٹس سے چیزیں غائب ہو جاتی ہیں اور سب سے اونچی مسند پہ بیٹھا حکمران بھی ملتا رہ جاتا ھے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ھے کہ مسند پر بیٹھا شخص اپنی کابینہ ایسے افراد کی بناتا ھے جن کے ہاتھ ان ذخیرہ اندوزوں کے پشت پر ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ من پسند ٹرانسفر پوسٹنگ کا کلچر انتظامی عمل کو بےروح بنا دیتا ھے۔ آخر میں ایسی قوموں کے حصے میں خوفناک تباہی آتی ھے جو آنے والی نسلوں کیلئے باعث عبرت ہوتی ہیں، اپنی غلط ترجیحات اور اقتدار کی جنگ میں آدھا ملک گنوا چکے ہیں، اگر یہی رویہ برقرار رہا تو ھم ایک بار پھر تاریخ کی بند گلی میں کھڑے ہونگے۔ کوئی بھی ماضی سے سیکھ کر خود کو بدلنے کو تیار نہیں، ھم سب اپنے اپنے انجام کی طرف انتہائی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

Check Also

Falasteenion Ko Taleem Bacha Rahi Hai (2)

By Wusat Ullah Khan