Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Bukhari
  4. Mushtari Hoshyar Bash

Mushtari Hoshyar Bash

مشتری ہوشیار باش

عمران خان نے 18 اگست 2018 کو پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو 17 اگست 1988 کی بہت یاد آئی وہ بھی اگست کا مہینہ تھا یہ بھی اگست کا مہینہ تھا وہ 17ا تاریخ تھی یہ 18 تاریخ تھی وہ بھی آٹھ کے ہندسے والا دن تھا یہ بھی آٹھ کے ہندسے والا دن تھا۔ اگست 88 19کے ساتھ بھی ملکی تاریخ کے بد ترین تخریب کاری کے واقعے میں مبینہ طور پر درون خانہ سازشوں کی طویل داستانیں وابستہ تھیں 2018 کی حلف برداری کے ساتھ بھی بہت ساری اندرونی سازشوں کی داستانیں جڑی ہوئی تھیں جو ایک ایک کر کے ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔

1988 کا شہید ریاست کی اکثریتی آبادی کا مسیحا اور ہمدرد تھا جسے ریاست کے مذہبی حلقوں کی مکمل تائید حاصل تھی 2018 کا فاتح بھی ریاست کے ووٹوں کی اکثریت کا مسیحا اور ہمدرد ہے اور مذہبی حلقوں میں بھی اس کے لئے غیر مشروط حمائت بدرجہ اتم موجود ہے۔ 1988 کے شہید کے ساتھ بھی وفاداروں کا ایسا گروہ تھا جن میں کچھ آخری سانسوں تک شہید کے ساتھ رہے جبکہ کچھ نے سفر کے آخری لمحات میں بوجوہ اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔ 2018 کے غازی کے ساتھ بھی کچھ ایسے وفادار ہیں جن کا جینا مرنا غازی کے ساتھ ہے اور کچھ نے ہر موڑ پر الگ راستہ اپنایا کچھ بھٹک گئے اور کچھ نئی منزل کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔

ایک فوجی تھا ایک سویلین ہے ایک کے جسم پر وردی تھی ایک قومی لباس میں دکھائی دیتا ہے۔ ایک نے ریاست کو مغربی جمہوریت کے چنگل سے نکال کر نظام مصطفی کی آفاقی پناہ گاہ بنانے کا نعرہ لگایا تو ایک نے جمہوری نظام کو ریاست مدینہ کے طومار میں لپیٹ کر لنگرخانوں کی زینت بنا ڈالا۔ ایک سخت جان راہی ملک عدم ہوا تو دوسرا سخت جان اپنی حیات کی سب سے مشکل اننگ کے خوفناک ترین اوور ز میں داخل ہوچکا ہے۔ جس طرح 2017 کے اوائل میں میاں نواز شریف کے لئے ہر نیا دن نئی مشکلیں لے کر آتا تھا عین اسی طرح 2021 کے آخری مہینے عمران خان کے لئے ہر روز ایک نئی گیند کے ساتھ ایک نئی مشکل ایک نئی مصیبت اور ایک نیا امتحان لئے تیار کھڑے ہیں۔

وہ جو ہر روز سیاسی مخالفین کے لئے یہ کہتا تھا کہ میں ان کو رلاؤں گا کسی کو چھوڑوں گا نہیں اب ایک ایک کرکے سب کو چھوڑنے پر مجبور دکھائی دے رہا ہے اور احتساب فقط نعروں اور بیانوں تک محدود ہوچکا۔ ملک کے کسی کونے میں شائد ہی کوئی پاکستانی ہو جو مہنگائی، کرپشن، انتظامی افراتفری کی چکی میں نہ پس رہا ہو۔ وزیر اعظم جن کو رلانے کے دعوے کرتے تھے سب سکھ اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی لندن کے موسموں کے مزے لے رہا ہے۔ کوئی متحدہ عرب امارات کی مثالی حکمرانی کے قصیدے پڑھ رہا ہے ہے کوئی قانون کے حکما کے مشوروں پر فائیو اسٹار ہوٹل نما ہسپتال میں دختر انگور سے علاج دل ناتواں میں مصرو ف ہے تو کوئی یوروپ کی مہنگی ترین گاڑیوں میں بیٹھ کر مزدوروں اور ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کسی کو پرائیویٹ تو کسی کو ذاتی جہاز میسر ہیں جن پر بیٹھ کر ان کی صبحیں کراچی اور شامیں قطر، مسقط یا دوبئی میں گذر رہی ہیں۔ جنہیں ریاست مدینہ کے دعوے دار سب سے بڑے ڈاکو اور لٹیرے کہتے تھے مسند اقتدار میں حصہ دار اور جنہیں چپراسی کے قابل نہیں سمجھتے تھے ریاست مدینہ کے اہم ستون ہیں۔

17 اگست والے نے عوام کو ریاست مدینہ کی حقیقی جھلکیاں دکھائیں لیکن 18 اگست والے نے عوام کو ریاست مدینہ کی بتیاں تک بھی نہیں دیکھنے دیں اور روز اول سے ہی ہر اس پاکستانی کی گردن دبوچ لی جس کی آنکھوں میں ریاست مدینہ کے خواب تھے۔ 18 اگست والوں کے پاکستان میں اقتدار ہے حکومت کہیں نہیں۔ دعوے ہیں عمل کہیں نہیں۔ قانون ہے انصاف کہیں نہیں درسگاہیں ہیں علم کہیں نہیں۔ عمران خان اپنے ہی دعووں اپنے ہی نعروں اپنے ہی ارادوں کی فل ٹاس گیندوں کی زد میں آچکا ہے۔ میاں نواز شریف پر جس طرح کی تیر اندازی 2017 میں شروع کی گئی عمران خان اس سے زیادہ برے حالات میں پھنستے دکھائی دے رہے ہیں۔

چالیس سال سے اقتدار کے درو دیوار میں بیٹھی کرپشن کی دیمک اب بہت زیادہ توانا ہو چکی ہے اتنی توانا کہ ہر قسم کی دیمک کے خاتمے کی آخری مؤثر دوا بھی جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں غیر مؤثر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ چاروں طرف قبضوں کا راج اور مافیاؤں کی حکمرانی ہے۔ پاکستان میں روٹی کپٹرا اور مکان چند گھرانوں کے خاندانوں کی نئی نسلوں کا صدقہ بن چکے ہیں اور اس صدقے پر بھی چند ہزار قابض ہیں۔ قانون کتابوں میں محفوظ کیا جا چکا ہے اور انصاف کو احتساب کے پھندے پر لٹکایا جا چکا ہے۔ پاکستان ریاست مدینہ کی بجائے ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں کا ہر شہری فرار کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ ہر طرف ایک عجیب سی بے یقینی پھیل رہی ہے۔ ریاست تو موجود ہے لیکن ریاست کے ادارے معدوم ہو چکے ہیں۔ ہر پاکستانی کیڑوں مکوڑوں کی طرح خود سے طاقتور کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔

ہر طرف لاقانونیت کا راج ہے کرپشن ننگی ہو کر ہر گلی محلے میں خود بھی ناچ رہی ہے اور ایک آزاد وطن کے خواب دیکھنے والوں کو بھی تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ ہر سمت افراتفری ہے کہیں سالوں نے اودھم مچا رکھا ہے کہیں بہنوئی آپے میں نہیں ہیں کہیں داماد سر چڑھ کر بول رہے ہیں کہیں بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار ادا کر رہے ہیں کہیں ماموں سنبھالے نہیں جا رہے کہیں چچاؤں کی عدالتیں ہیں تو کہیں پھوپھا تو کجا من کجا کی تلوار لہراتے پھر رہے ہیں اور اس سارے گورکھ دھندے کے نشانے پر صرف وہ پاکستانی ہیں جن کے آباؤ اجداد نے ایک آزاد اسلامی جمہوری ریاست کے خواب دیکھے جان و مال کی قربانیاں دیں لاکھوں عصمتیں لٹیں ہزاروں عزتیں خاک نشین ہوئیں جو سات دہائیاں گذرجانے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل ہوتا دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

عمران خان نے وہی کچھ کیا جو اقتدار کے لئے ہر سیاست دان کرتا ہے دعوں، وعدوں اور خوابوں کے آسمانوں پر چڑھا کر عوام کے پاؤں کے پیروں تلے سے زمین بھی کھینچ لی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب روزمرہ اشیا، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھتی ہوں۔ ہر دوکان ہر محلے ہر شہر میں اشیا کے اپنے اپنے تعین کردہ دام ہیں جو روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرح کہیں رکنے کا نام نہیں لیتے۔ سرکار کے ماتحت ادارے نہ سرکار کو مانتے ہیں نہ ریاست کو۔ سچ تو یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلی اور سندھ کی حکمران جماعت کے رہنماؤں کے بیانات سننے کے بعد تو ریاست خود بھی بے یقینی کا شکار ہوچکی ہے کہ اس کی حدوداٹھارویں ترمیم میں قید کی جا چکی ہیں۔ چند ہفتوں کے ملکی حالات اور اقتدار کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں تیزی سے نئے مکینوں کی آمد روفت سے ایسا لگتا ہے کہ 2017 میں شروع کی جانے والی سیاسی دھما چوکڑی سے بھرپور فلم کی دوبارہ ریلیز کے انتظامات شروع کردئیے گئے ہیں۔

کسی بھی نئی فلم کی تشہیر کے لئے جو اقدامات ضروری ہوتے ہیں وہ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ کے ضمنی اور کنتونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے ذریعے پورے کئے جا رہے ہیں بس دیکھنا یہ ہے کہ رہنمائی 17 اگست سے لی جائے گی یا 18 اگست سے؟

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq