From Landhi Jail With Love
فرام لانڈھی جیل ود لوو
اکتوبر 1999 میں کیا ہوا تھا۔ ایک منتخب وزیر اعظم نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوج کے ایک سربراہ کو برطرف کرکے دوسرا سربراہ مقرر کیا تھا جیسے 1972 میں ایک منتخب وزیر اعظم نے فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کو برطرف کرکے مصاحبین خاص کی حفاظتی حراست میں لاہور کے حفاظتی مرکز میں منتقل کیا تھا۔
1972 میں برطرف کیا جانے والا جنرل گل حسن تھا جس کے ساتھ فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل رحیم خان بھی تھے لیکن 1999 مین برطرف کئے جانے والے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کے ایک اے ڈی سی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ جنرل گل حسن اور ایئرمارشل رحیم خان سے جبرا استعفووں پر دستخظ کروا کر انہیں ان کے شایان شان ایک مرسڈیز میں غلام مصطفی کھر، ممتاز علی بھٹو اور غلام مصطفی جتوئی کی نگرانی میں لاہور لے جاکر قید کردیا گیا جبکہ جنرل پرویز مشرف کو اپنی برطرفی کے وقت سری لنکا سے پاکستان آنے والی پی آئی کی فلائٹ کے دو سو سے زائد مسافروں سمیت کراچی کی بجائے پہلے نواب شاہ پھر بھارت اور بالآخر کراچی پراتارا گیا بدقسمتی سے 1972 کے جنرل ٹکا خان کی طرح کے حالات 1999 کے جنرل ضیا الدین بٹ کو دستیاب نا ہوسکے۔
جنرل گل حسن نے مرنے سے پہلے اپنی یاد داشتوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں کو اغوا کار کہہ کر 1999 کے بارے میں غیر ارادی پیشین گوئی بھی کردی تھی جب 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نوازشریف کے خلاف جہاز کے اغوا کا مقدمہ بنایا اور بعد ازاں میاں نوازشریف کو سزاوں اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
12 اکتوبر1999 کی شام سے ہی ملک میں عجیب و غریب افواہوں نے گردش شروع کردی تھی موبائل تو تھے نہیں بس سنی سنائی باتیں اسلام آباد، راولپنڈی اور ملتان کے اطراف میں گردش کررہی تھیں۔ شام پانچ بجے کے قریب کراچی سے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں اعجاز شفیع دفتری امور نمٹا کر گھر کے لئے نکلے تو چند ہی منٹوں بعد ان کے دست راست شیخ فیاض کا فون آیا پوچھا اعجاز چلے گئے کہ ہیں ان کے جانے کی بات سن کر کہا کہ میں بھی اعجاز کے گھر ہی جارہا ہوں اور رابطہ ہو تو ان ے کہنا ذرا محتاط رہیں۔ شام جوں ہی گہری ہونا شروع ہوئی تو دفتر کی گھنٹیوں نے نے لگاتار چیخنا شروع کردیا۔ ایک فون، دوسرا فون پھر فیکس کے لئے استعمال ہونے والا فون بھی دھاڑنا شروع ہوگیا۔
شیخ فیاض مرحوم کا دوبارہ فون آیا کہ تم دفتر میں ہو۔ گھر جاؤ اور ٹی وی دیکھو۔ ساتھ ہی ہدایت بھی دی کہ کل دفتر بند ہی رکھنا۔ دفتر بند کرتے کرواتے اعجاز شفیع صاحب کے گھر فون ملایا تو وہ بھی کچھ پریشان تھے لیکن فون ریکارڈ ہونے کی وجہ سے گھر جانے کا حکم دیا اور اپنے خالص پنجابی لہجے میں کہا کل فیر توں آپے ویکھ لویں کی کرنا ایہہ؟
12 اکتوبر1999 کی شام گہری ہوتے ہوتے رات میں بدل گئی، گھر پہنچ کر اکلوتے پی ٹی وی کو آن کیا تو ترانوں، ملی نغموں کے ساتھ خوف کی فضا نمایاں تھی۔ رات کے ڈھلنے کے ساتھ ہی پاکستان کا سیاسی منظر تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ 1972 کے مصاحب کامیاب ہوئے لیکن 1999 کے مصاحبین صبح ہونے سے پہلے ہی اتراتے اتراتے منظر سے غائب ہونا شروع ہوگئے۔ 13 اکتوبر1992 کی صبح گلگت بلتستان، کشمیر، سندھ بلوچستان، پنجاب این ڈبلیو ایف پی میں مسلم لیگ(ن)کو کہیں کوئی دفتر حتی کے ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد کے مرکزی دفاتر تک کو تالے لگے چکے تھے ملک بھر میں مسلم لیگ(ن) کا فقط ایک دفتر تھا جو12 اکتوبر1999 کے بعد2004 میں مرحوم اعجاز شفیع کی وفات تک ایک دن کے لئے بھی کبھی بند نہیں ہوا۔
ملک بھر میں مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت نے چپ سادھ لی، چودہری شجاعت سمیت کچھ ہمخیال بن گے اور کچھ نے سید پرویز مشرف کی بیعت کر لی۔ سندھ میں منحنی سی مسلم لیگ(ن) جسے اعجاز شفیع، حلیم صدیقی نے کندھے دے رکھے تھے سامنے تھی جبکہ موسمی بٹیروں کی طویل قطار فرمائشی گرفتاریوں کا ڈرامہ رچا کر ادھر ادھر ہونے میں کامیاب رہی۔ سید پرویز مشرف کی مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ(ہمخیال) پر نوازشات میں کچھ ٹھہراؤ آیا تو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو کراچی یاترا کے لئے بھیج دیا گیالیکن مرسڈیز نہیں فوج کے سی ون تھرٹی جہاز کی نشستوں کے ساتھ باندھ کر میاں صاحب کو کراچی لایا گیا جس پر اعجاز شفیع مرحوم نے عدالتوں اور میڈیا میں کھل کر تنقید کی۔
کراچی پہنچنے کے اگلے روز جب میاں برادران کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تو سوائے کراچی کے چند رہنماؤں اور کارکنوں کے کوئی وزیر مشیر، مصاحب، سفیر موجود نا تھا۔ سید پرویز مشرف نے جنرل پرویز مشرف کے دبدبے کا بھرپور مظاہرہ کیا اور میاں برادران کو لانڈھی جیل کا مہمان بنا نے کا حکم صادر ہوا جہاں شاہد خاقان عباسی، سید غوث علی شاہ، سینیٹر سیف الرحمن رانا مقبول پہلے سے موجود تھے۔ احتساب عدالت کے احاطے میں اعجاز شفیع اور دیگر مقامی رہنماؤں کو پولیس کی مہربانی سے اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ میاں برادران سے چند لمحے گفتگو کر سکیں۔
لانڈھی جیل تک کراچی شہر کے نواح میں ہونے کی وجہ سے عام کارکن کی رسائی تقریبا ناممکن تھی قیادت کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی ذمہ داری لینے کے لئے بھی ہچکچاہٹ نمایاں تھی۔ مشیر اعلی سندھ سید غوث علی شاہ جو مسلم لیگ(ن) سندھ کے صدر بھی تھے جیل میں تھے گرفتاریوں اور سید پروز مشرف کے جلال سے محفوظ مقامی قیادت کے اپنے اپنے مسائل تھے ایسے میں اعجاز شفیع مرحوم کے دست راست شیخ فیاض مرحوم نے اعجاز شفیع کے کہنے پر لانڈھی جیل کے پارٹی قائدین کے کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا پہنچانے کی ذمہ داری لینے کی خواہش میاں نواز شریف کے سامنے رکھی تو میاں نواز شریف نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا اعجاز بھائی آپ کے علاوہ ہمارا کون ہے یہاں؟ اور یہ طے ہوگیا کہ جب تک میاں نواز شریف میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی لانڈھی جیل میں قید رہیں گے ان کے کھانے پینے سمیت ضرورت کی تمام اشیا میاں اعجاز شفیع بھجوایا کریں گے۔
احتساب عدالت سے روانگی کے وقت فوری طور پر کچھ سامان میاں صاحبان کے ساتھ بکتر بند گاڑی میں رکھوا دیا گیاجس کا تمام تر کریڈٹ شیخ فیاض مرحوم کی حاضر دماغی اور پھرتی کو جاتا تھا۔ اگلا روز بغیر پیشی کے تھا دوپہر کے وقت میاں اعجاز شفیع اور شیخ فیاض چھ وی وی آئی پی قیدیوں سمیت دس فراد کا کھانا، ان کیلئے پھل فروٹ، خشک میوہ جات لے کر لانڈھی جیل پہنچے جہاں رینجرز کے خصوصی دستے نے کھانے کی اشیا اسیران تک پہنچانے سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے لہجے میں سید پرویز مشرف کا حکم سنایا کہ جناب اعجاز صاحب چونکہ قیدی وی وی آئی پی ہے اور جیل قوانین کے مطابق وی وی آئی پی قیدیوں کے لئے آنے والی کھانے کی ہر چیز لانے والے کو جیل حکام کے سامنے خود چکھنی ہوتی ہے اس لئے آپ کھانے کی جو اشیا بھی ساتھ لائے ہیں پیک فوڈ کے علاوہ وہ سب کھولیں اور کھائیں تاکہ کھانا آپ کے مہمانوں تک پہنچا سکیں۔
میاں اعجاز شفیع جوکہ شوگر کے مریض تھے انسولین ہر لمحے اپنے ساتھ رکھتے تھے یہ حکم سن کر پریشان ہو گئے اور رینجرز حکام کو بتایا کہ وہ شوگر کے مریض ہیں اتنی اشیا، پھل فروٹ نہیں کھا سکتے۔ یہ میری جان کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن رینجرززاور جیل حکام ٹس سے مس نا ہوئے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت کھانا تقریبا دس افراد کے لئے تھا جسے کھولا گیا میاں اعجاز شفیع نے ہر کھانے اور میٹھے سے ایک ایک ایک لقمہ لینا شروع کیا اور چند ہی ساعتوں بعد ان کی رنگت بدلنے لگی، چہرے پر بے چینی کے اثرات نمایاں ہونے لگے لیکن قائد میاں نواز شریف اور ساتھیوں کی بھوک کا تصور کرکے تمام اشیا ہی چکھ ڈالیں اور فورا ہی واپسی کا ارادہ کیا لیکن جنرل پروز مشرف کے پیادوں کے سینے میں دل ہی کہاں تھا اسوقت تک انہیں بٹھائے رکھ جب تک کھانا میاں صاحبان کی بیرکوں میں نہیں پہنچ گیا اور رینجرز کے سپاہیوں نے واپس آکر سب اچھا کی رپورٹ نہیں کردی۔
میاں اعجاز شفیع تیزی میں لانڈھی جیل کے استقبالیہ دفتر سے باہہر نکلے، شیخ فیاض سے کہا کہ سب سے پہلے الحمرا سوسائٹی میں ڈاکٹر اقبال کے پاس لے چلیں۔ الحمرا ہسپتال میں اعجاز شفیع کو فوری طبی ادویات دی گئیں اور قریبا ایک گھنٹہ نگرانی میں رکھنے کے بعد شام پانچ بجے کے قریب انہیں گھر جانے کی اجازت دی۔ لانڈھی جیل میں میاں محمد نوازشریف، محمد شہباز شریف، سید غوث علی شاہ، شاہد خاقان عباسی، سینیٹر سیف الرحمن اور رانا مقبول کو جیل میں بنفس نفیس کھانا پہنچانے کا وہ پہلا اور آخری دن تھا۔
اسی رات لانڈھی جیل کے وی وی آئی پی اسیروں کو کھانا پنچانے کا پروگرم تبدیل ہوگیا اور دسمبر 2000 میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جبری جلاوطی پر روانگی تک لانڈھی جیل کے اسیروں کو کھانا اعجاز شفیع کے دست راست شیخ فیاض اور ان کے سیکریٹری پہنچاتے رہے۔ میاں محمد نوازشریف کیلئے جیل میں کھانا پہنچانے کا میاں اعجاز شفیع کا وہ پہلا تجربہ تھا اس لئے کھانے کی تمام اشیا اعجاز شفیع نے اپنے گھر میں تیار کروائی تھیں جن کے ذائقے سے متاثر ہو کر میاں نواز شریف نے متعدد خطوط میں میاں اعجاز شفیع کے اہل خانہ کی تعریف کی۔