Chalo Hum Maan Lete Hain
چلو ہم مان لیتے ہیں
جولائی 2018 کے عام انتخابات کی گرد ہے کہ بیٹھ کر ہی نہیں دے رہی۔ قومی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں حزب اختلاف نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں بھرپور حصہ لیا اور گاؤں میں بیاہ کر جانے والی شہری دلہن کی طرح حزب اقتدار کو جتا بھی دیا تھا کہ ہم سے چھیڑ چھاڑ کی تو اچھا نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت کا تیسرا سال اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے کامیابیاں غیر محسوس اور ناکامیوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں۔ عمران کی شخصیت کے سحر اور بقول پیپلز پارٹی رہنما اعتزاز احسن دل کو چیرتی ہوئی عمران خان کی تقریروں اور دعووں سے متاثر پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت نے خود بھی ووٹ تحریک انصاف کو دیا اور برسوں سے مختلف سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے والے اپنے والدین کو بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ کیوں ہوا اور کیسے ہوا کی گردان سے ہٹ کر بات کریں تو عمران خان نے تین دہائیوں سے ملک پر راج کرنے والی دو بڑی جماعتوں کے خاموش اتحاد کو ہلا کر رکھ دیا۔
ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اکیاون ہزار ووٹ لے کر تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر تو ضرور ابھری لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لئے مطلوبہ نمبر نہ حاصل کرسکی۔ کاش ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقتدار کا کچھ وقت دنیا کی واحد مسلم ایٹمی ریاست پاکستان کے سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھتے تو انہیں جو بائیڈن کے ہاتھوں ہزیمت نہ دیکھنی پڑتی۔ ہواؤں کے بدلتے اطوار نے سیاسی پرندوں کا رخ بھی تبدیل کردیا جس کے بارے میں آج دو سال سے زائد کے عرصے کے بعد مریم بی بی اور بلاول بابا کو پتہ چلا کہ خلائی مخلوق کا کمال تھا۔ جیسے تیسے کر کے عمران خان وزارت عظمی کی مسند تک تو پہنچ گئے لیکن ایسی کمزور مسند جس کی چاروں چولیں نحیف اور ناتواں ثابت ہوئیں۔ جو مسلسل ڈگمگاتی رہتی ہیں۔ تین چار دہائیاں اقتدار کی راہداریوں میں رہنے والوں کے لئے ایک دو سال تو بھیانک خواب کی طرح گذر گئے لیکن تیسرے سال کے شروع ہوتے ہی انہیں احساس ہوا کہ عمران خان اگر اپنی ڈگمگاتی کرسی پر پانچ سال پورے کر لیتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آسکتے ہیں جو گذشتہ تین دہائیاں حکمرانی کرنے والی جماعتوں اور ان کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کا جھولا جھولنے والوں پر اقتدار کے راستے ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایک دو تین سے شروع ہونے والی گنتی گیارہ تک پہنچی تو حزب اختلاف پر یہ عقدہ کھلا کہ پاکستان میں ایک چورن ایسی بھی ہے جسے کہیں بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی بیماری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مانگے تانگے کی کرسی پر بیٹھا ایک اکیلا عمران خان جان ہی نہیں سکا کہ ان کے ارد گرد بیٹھے شکاریوں نے تحر یک انصاف کے ووٹرز کے ساتھ ایسا کھیل رچایا ہے جو بلآخر عمران خان کو ایوب خاں کی طرح مستعفی ہونے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ایک ایک کرکے ہر وہ کھیل رچایا گیا اور بدستور رچایا جا رہا ہے جس سے عمران خان کو ووٹ دینے والے نوجوان کم اور ان کے والدین زیادہ پریشان ہو رہے ہیں۔ ڈالر کو ایسے پر لگے کہ اسٹاک ایکسچینج زمین بوس ہو گیا، کبھی آٹا تو کبھی گندم، کبھی چینی تو کبھی خوردنی تیل، کبھی پٹرول تو کبھی گیس، کبھی انڈے تو کبھی مرغیاں اس پر ستم یہ بھی ہوا کہ کرونا وائرس نے حزب اختلاف کی چھپی خواہشوں کو پر لگادئیے۔ فیکٹریاں چلتی رہیں لیکن مزدور بے روزگار کئے جاتے رہے۔
حزب اختلاف کے کسی رہنما کے کارخانے بند ہوئے نہ ملوں کو تالے لگے نا ہی پٹرول پمپ بند ہوئے نا ہی بڑی بڑی زمینداریوں میں کوئی کمی آئی ہاں البتہ کرونا کا نام لے کر حزب اختلاف کے مل مالکان، زمینداروں، شوگر مل مالکان، پولٹری کی صنعت پٹرول پمپ مالکان نے اسٹیٹ بینک کی قرضوں کی اسکیموں سے تو دونوں ہاتھ دھوئے مگر غریب متوسط ملازمین کی اجرتیں نصف سے بھی کم کردیں۔ اقتدار کی کرسی کو عوام کی نظروں میں بے توقیر کرنے کے لئے حزب اختلاف نے وہ تمام ہتھیار بے رحمی سے استعمال کرنے شروع کردئے جنہیں پاکستانی سیاست میں متعارف کروانے کا سہرا بلا شبہ عمران خان کے سر جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وہ تمام ٹیمیں بشمول ڈی جے بٹ جو عمران کے اقتدار کی سیڑھیاں بنے تھے اب حزب اختلاف کے ہاتھوں میں اسی بے رحمی اور سفاکی سے استعمال ہو رہی ہیں دعووں اور جھوٹے اعداد و شمار اور مکروہ الزامات کی رٹ اسی زور شور سے جاری ہے جس طرح عمران خان ڈی چوک کے دھرنے سے عوام کو سہانے خواب دکھایا کرتے تھے۔
ایک دو تین جلسوں چھوٹے موٹے جلوسوں کے بعد تاریخ ہی نہیں تاریخ انسانیت کے سب سے بڑے معجزے نے جنم لیا یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے رجوع کے بعد انہتر لاکھ ایک ہزار چھ سو پچھتر ووٹ لینے والی جماعت کے سربراہ نے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اکیاون ہزار دو سو چالیس ووٹ لے کر وزیر اعظم بننے والے عمران سے 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے لیکن مستعفی ہونے کا سال واضح نہیں کیا غالبا سندھ کی حکومت، سینیٹ کے انتخابات، نیب کے مقدمات کے مقدر کا فیصلہ ہونے کا انتظار کرنا مقصود ہوگا۔ دوسری طرف ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو پینتیس ووٹ لینے والی جماعت کی ممکنہ سربرا ہ مریم بی بی ہیں جو کسی صورت بھی عمراان خان کو برسر اقتدار دیکھنا نہیں چاہتیں خواہ حالات کچھ بھی رخ اختیار کریں اس کے لئے پچیس لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو بیس ووٹ لینے والی پانچ جماعتوں کا مجموعہ بھی مریم بی بی کا ہم آواز ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ عمران خان اقتدار کی آئینی مدت کے عین وسط میں کسی صورت مستعفی ہوجاتے ہیں۔ حزب اختلاف کی خواہش کے مطابق ملک میں نئے انتخابات ہوجاتے ہیں حزب اختلاف کی جماعتیں وفاق اور تمام صوبوں میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور عمران خان جو دو جماعتی نظام میں ہیر کے چچا کیدو کی صورت ایک اٹل حقیقت بن کر ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود رہتے ہیں تو تاریخ کا دھارا کس سمت کا رخ کرے گا۔
پاکستان میں طویل ترین دھرنے ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسوں اور حکمرانی کے پل صراط پر چلنے کے تجربے کے ساتھ کیا عمران خان نئے آنے والے حکمرانوں کو چین سے بیٹھنے دیں گے۔ کیا اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یا بقول شخصے خلائی مخلوق عمران خان کو روک پائے گی۔ کیا اس وقت چھوٹی جماعتوں کے سربراہ جن کی تاریخ موسموں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ گھونسلے بدلنے کے واقعات سے اٹی پڑی ہے کیا اس وقت کی حکومت کو چین سے حکومت کرنے دیں گے؟ اور اگر 35 نشستوں والے عمران خان کو اس وقت کی حزب اقتدار جو موجودہ حزب اختلاف کی شکل اختیار کر چکی ہے روک نہیں سکی تھی تو آنے والے دنوں میں وزارت عظمی، لولی لنگڑی وفاقی حکومت کو چلانے اور عوام کی امیدوں کو بام عروج پر لانے والے اور149 نشستوں تک جا پہنچنے والے عمران خان کا راستہ روکنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا جس کا نتیجہ نئے انتخابات، ان ہاؤس تبدیلی کی صورت نہیں نکلے گا اس وقت عمران خان کی اننگ اگر مکمل نہ ہو چکی ہوئی تو ایک ہی آواز سماعتوں سے ٹکرا رہی ہوگی کہ میرے عزیز ہموطنو! اور اس کے بعد دس بیس یا کئی دہائیوں کا سفر ہوگا جس میں شائد عمران خان بھی موجودہ حزب اختلاف کی کشتی میں بیٹھا نظر آئے گا۔