Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Bukhari
  4. Aur Kahani Ikhtitam Tak Aan Pohanchi Hai

Aur Kahani Ikhtitam Tak Aan Pohanchi Hai

اور کہانی اختتام تک آن پہنچی ہے

ستر کی دہائی کا قصہ ہے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر کنری کے نواح کے ایک گاوں چیل بند میں 2024 کی سیاست کی بساط کا نمونہ تیار کیا جا رہا تھا۔ چیل بند کا ایک متوسط زمیندار سید علی اصغر شاہ ان دنوں کنری کے شہریوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بنا ہوا تھا یا شائد بنا دیا گیا تھا۔

شہر کے گلی محلوں سے شہر کی چھوٹی بڑی دوکانوں، ہوٹلوں تک ہر جگہ سید علی اصغر شاہ کے بارے میں دیو مالائی کہانیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ کسی ھجام کی دوکام پر بیٹھتے تو سید علی اصغر شاہ کا تذکرہ، شہر کے واحد بس اڈے سے گذرتے تو علی اسغر شاہ کے قصے، چاچا نصیر کی محنت اور ایمانداری کی بے مثال نشانی کنری کے واحد پبلک پارک میں جاتے تو علی اسغر شاہ کا خوف اور قاضی سلطا ن گورنمنٹ ہائی اسکول اور گوٹھ منشی غلام محمد کے درمیان واقع زیر تعمیر واٹر سپلائی اسکیم کے پانی کے تالاب کے پاس سے گزر ہوتا تو پانی کے مٹکے سروں پر رکھے شہر کی خواتین بھی سہمی سہمی دکھائی دیتی تھیں۔

متعدد بار سید علی اسغر شاہ کو واٹر سپلائی اسکیم سے ملحق پبلک پارک کے قریب بیٹھے دیکھا ستر کی دہای میں بھی وہ اپنی بڑی سی جیپ میں آتا جاتا تھا شکل و صورت سے و جاہت کی مثال تھا۔ اسکول کے بچوں کے ساتھ پیار سے بات کرنا گالوں پر تھپکی دینا اور سندھی زبان میں محنت سے پڑھائی کی تاکید کرنے والا سید علی اصغر شاہ شکل و صورت سے بالکل بھی برا انسان نہیں لگتا تھا۔ اس کے اپنے گاؤں چیل بند کے اطراف کے چھوٹے زمینداروں نے بھی کبھی اس کی شکائت نہیں کی تھی۔ نا ہی اس کے گاؤں کے ارد گرد رہائشی دیہاتوں میں کبھی چوری ڈکیتی یا نقب زنی کا کوئی واقعہ ہوا تھاجبکہ ان دنوں اندروں سندھ چوریوں، ڈکیتیوں اور نقب زنی کا چلن عام تھا۔

کنری شہر اور اطراف کے دیہات میں سید علی اصغر شاہ کے بارے میں پھیلے قصے کہانیوں کے باوجود واٹر سپلائی اسکیم کے تالاب سے روزانہ کی بنیاد پر پانی بھرنے کے لئے آنے والی کسی خاتون کے ساتھ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ موجودہ دور کے سوشل میڈیا کی طرز پر اس دور میں معلومات کا واحد ذریعہ سینہ گزٹ تھا۔ جس طرح آج کے دور میں کسی کی کردار کشی کے لئے بڑے اخبار یا ٹی وی کو استعمال کیا جاتا ہے اس دور میں شہر قصبے یا گاؤں کی معتبر شخصیات کی زبانوں پر الفاظ رکھ دئیے جاتے تھے۔

کنری شہر کے باسیوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیاگیا تھا کہ شام ڈھلتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے تھے۔ شہر کے چوراہوں، ریلوے اسٹیشن اور بڑی سڑکوں پر گیس لائٹ کے انتظام کے باوجود لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا بند کردیا تھا۔ پانی بھرنے کے لئے آنے والی خواتین شام کی بجائے گرم دوپہروں میں پانی بھر کر لے جانے لگیں۔ کنری شہر سے عمر کوٹ جانے والی اکا دکا بسوں نے بھی شام کے بعد سروس بند کردی، چیل بند کی طرف جانے والے رستوں پرایک ہو کا عالم نظر آنے لگا، ان دیکھے خوف نے کنری شہر اور اطراف کے دیہاتوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا تھا لیکن کہیں سے کوئی ایک زمیندار، ہاری، شہری یا کاروباری ایسا شخص سامنے نہیں آیا جو عوام کے خوف کی تصدیق کرسکتا لیکن سید علی اصغر شاہ معمول کے مطابق اپنی جیپ میں شہر آتا تھا۔ اپنے دوست احباب سے ملتا تھا کبھی کبھار شام کے وقت واٹر سپلائی اسکیم کے ساتھ موجود بہت بڑے جوہڑ کی منڈیر پر بیٹھا دکھائی دیتا تھا۔

شہر کے پرائمری اور ہائی اسکول کے اساتذہ نے جن میں کچھ سید علی اسغر شاہ کے بھی استاد تھے کبھی کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا شہرکے چیئرمین اور کونسلرز میں سے بھی کبھی کسی نے علی اصغر شاہ سے مل کر شہر میں اس کی بابت پھیلی ہوئی افواہوں کے تدارک کی کوشش نہیں کی کی یا غیر ضروری سمجھا۔ شہر کے چوہدری، سیٹھ، علما، واحد پریس کلب کے اراکین سمیت مختلف اقلیتی برادریوں کے زعما میں سے کسی ایک نے بھی اپنے شہر کے ایک خوبصورت وجیہ ور بہادر بیٹے سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ شہر مین پھیلی افواہوں کی حقیقت کیا ہے؟ یا شائد وقت کے منصوبہ سازوں نے جس سینہ گزٹ کے ذریعے سید علی اسغر شاہ کی شخصیت کو مسخ کیا تھا ان کی اپنی ہی کہی ہوئی باتیں علی اصغر شاہ سے رابطے میں دیوار بن چکی تھیں شائد کہانی کو تیزی سے اختتام کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔

پھر اچانک کچھ دنوں کے لئے شہر بھر کو جیسے سانپ سا سونگھ گیا۔ شہر کی رونقیں ماند پڑ گئیں شہر کے وہ چند ہوٹل جہاں مغرب کے بعد بلند آواز میں فلمی گانے بجتے تھے رات دیر گئے تک دودھ پتی چائے اور مٹن فرائی کے دور چلتے تھے جیسے بجھ سے گئے۔ شہر ایسی بستی کا منظر پیش کرنے لگا جیسے کچھ بڑا ہونے والا ہو۔

ایک دوپہر اسکول سے چھٹی کے بعد محترم استاد سر جیون صاحب نے بطور سزا دیرتک پوری کلاس کو روکے رکھا اور کوئی چار بجے چھٹی دی۔ اپنے محلے کے کلاس فیلوز کے ساتھ واٹر سپلائی اسکیم کے تالاب کے پاس سے گذر ے تو سید علی اصغر شاہ اپنی جیپ کے ساٹھ ٹیک لگائے کھڑے تھے ہاتھ میں گلاس تھا اور گلاس میں شراب۔ ہم ڈرے سہمے دور سے سے گذرنے لگے تو انہوں نے سندھی زبان میں ہمیں بلایا اور پوچھا ڈر کیوں رہے ہو میں تمہارے باپ جیسا ہوں تم میرے بچے ہو۔ میں خراب آدمی نہیں ہوں بس شراب پیتا ہوں۔ سب کے سامنے اس لئے پیتا ہوں کہ جب میرا اللہ دیکھ رہا ہے اور مجھے معاف کر رہا ہے تو میں لوگوں سے کیوں ڈروں۔ بس اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے مجھے ڈاکو، زانی، بدمعاش بنا دیا ہے۔

میں کسی کے گھر میں گندم کسی کے لئے گاڑی کا انتظام اور کسی کا غریب ہاریوں کے حق پر ڈاکہ مارنے میں ساتھ نہیں دے سکتا اس لئے میرے خلاف کچھ طاقتور لوگوں نے نفرت کی فضا بنائی ہوئی ہے۔ لیکن میں ان کے سامنے جھکوں گا نہیں۔ ہم تین دوستوں کو سید علی اصغر شاہ نے چار چار آنے بھی دئیے کہ جا کر چیز کھانا۔ حیرت ہے شائد سید علی اصغر شاہ کو سن گن مل گئی تھی کہ اس کے بارے میں عوام کی رائے کیسی ہے لیکن قاضی سلطان ہائی اسکول کے تین بچوں کے سامنے اس کی وضاحت جو کہ ضروری ہی نہیں تھی بہت تاخیر کا شکار ہو چکی تھی۔

اگلے دن اسکول سے چھٹی ہوئی بستے اٹھائے ٹاؤن کمیٹی چوک پر پولیس اسٹیشن کے سامنے سے گذر رہے تھے تو دیکھا کہ پولیس اسٹیشن میں جیسے افراتفری مچی ہوئی تھی تین دکانوں پر مشتمل کنری پولیس اسٹیشن کے سامنے پولیس کی گااڑیاں اور معمول سے بہت زیادہ پولیس والے قریب ہی صابو چا چا کے مکان کی طرف آ جارہے تھے۔ بچپنے کا تجسس اور کلاس فیلوز نے چاچا صابو کے گھر کے اندر جانے کی کوشش کی جو شائد بچے ہونے کی وجہ سے کسی نے نوٹس نہیں کی اور جب ہم گھر کے اندر داخل ہوئے تو کنری شہر کے ایک بیٹے کی کہانی انجام کو پہنچ چکی تھی۔

گھر کے صحن میں زمین پر سید علی اصغر شاہ کی خون میں لت پٹ لاش پڑی تھی۔ وہاں موجود پولیس والوں کی اردو، سندھی اور پنجابی میں ہونے والی گفتگو سے علم ہوا کہ گذشتہ رات پولیس سید علی اصغر شاہ کے گاؤں چیل بند انہیں گرفتار کرنے گئی تھی علی اصغر شاہ نے پولیس سے پوچھا کہ میرے خلاف کوئی ایف آئی آر، کوئی شکائت یا وارنٹ ہے تو میں بخوشی ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن اگر اپنی بات منوانے کے لئے زبردستی مجھے گرفتار کیا تو اس بات کا خیال رکھنا کہ مجھے زندہ مت چھوڑنا زندہ رہا تو جیل سے باہر آجاؤں گا اور پھر تم میں سے کوئی نہیں ہوگا اس کے بعد اچانک گولیاں چلنی شروع ہوگئیں جس میں علی اصغر شاہ مارا گیا۔ علی اصغر شاہ کو مار دیا گیا لیکن اس کے چہرے کا سکون خوان کی سرخ لکیریں اور گولیوں کے نشان چیخ چیخ کربول رہے تھے کہ کہانی کچھ اور ہے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam