Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Bukhari
  4. Atlantic City Ki Margaret Aur Driving License Branch Karachi

Atlantic City Ki Margaret Aur Driving License Branch Karachi

اٹلانٹک سٹی کی مارگریٹ اور ڈرائیونگ لائسنس برانچ کراچی

کچھ مہینے پہلے کی بات ہے ڈرائیونگ لائسنس کی مدت ختم ہو رہی تھی کراچی مسلم لیگ(ن) کے ایک صوبائی رہنما سے سفارش کروا کے ڈرائیونگ لائسنس برانچ کلفٹن پہنچا میرا بیٹا اور اس کا ایک دوست بھی ہمراہ تھا۔ مطلوبہ انسپکٹر صاحب سے گیٹ پر ہی ملاقات ہوگئی انہیں بتایا کہ میں فلاں صاحب کے دفتر سے آیا ہوں اپنے اور بیٹے اور اس کے دوست کے لائسنس کی تجدید کروانی ہے۔

اب انسپکٹر صاحب نے پرانے لائسنس بغور دیکھے اور ہم تینوں کا سر تا پیر ایسے جائزہ لیا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو کہ ہم تینوں کے ڈرائیونگ کے لئے لازمی تمام اعضا سلامت ہیں کچھ فارم بھروائے اور پرانے لائسنس ہم سے لے کر ہمیں لائسنس برانچ کے اندر بیٹھے کا حکم دیا جہاں درجن بھر کمپیوٹر لیکن نصف آپریٹر مصروف عمل تھے۔ ایک کمرے میں کوئی افسر لائسنس بنوانے کے لئے آئے ہوئے خواتین و حضرات کے انٹرویو کر رہے تھے۔ دو گھنٹے بعد بیٹے اور اس کے دوست کو لے جاکر گاڑی چلوائی اور تسلی کی کہ دونوں بچے ڈرائیونگ سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے بزرگی کی رعائت ملی جس کی لائسنس حاصل کرنے کے بعد اصل حقیقت سامنے آئی۔

صبح دس بجے سے دن کے تین بجے تک پاکستان کا مطلب کیا؟ کا عملی نمونہ دیکھتے دیکھتے ہمیں باری باری تصاویر کے لئے خالصتا پاکستانی انداز سے تصاویر کے لئے بھی طلب کیا گیا ڈرائیونگ برانچ کے کیمروں میں محفوظ کی گئیں۔ خدا خدا کرکے کوئی چار بجے کے قریب انسپکٹر صاحب نے ہمیں اشارے سے باہر بلایا اور گیٹ سے ہٹ کر ایک کونے کے پاس لے جا کر ہم تینوں کے ڈرائیونگ لائسنس ہمارے حوالے کئے اور مبلغ بارہ ہزار روپے کی ادائیگی کے لئے کہا یعنی چار ہزار روپے فی لائسنس جبکہ لائسنس کی کل فیس پندرہ یا اٹھارہ سو تھی۔

بچوں کے سامنے اپنا اور مسلم لیگ(ن) کے لیڈر کا بھرم رکھنے کے لئے بارہ ہزار ادا کئے اور گیٹ سے باہر نکلے تو انسپکٹر صاحب بھی ساتھ ہو لئے لائسنس برانچ کے باہر کی دوکان سے ٹھنڈے جوس کے تین ٹن اٹھا کر ہمیں پیش کئے اور سلام کرکے یہ جا وہ جا۔ آج کے بچے بلاشبہ بہت چالاک اور ذہین ہیں میرے بیٹے نے اپنے دوست سے کہا لو پیو کیا یاد کروگے اتنی مہنگی کولڈ ڈرنک صرف وی وی آئی پیز کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ بیٹے کے لفظوں کی کاٹ دل کو چیرتی ہوئی دماغ سے جا ٹکرائی اور ہم خامشی کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوگئے۔

بڑے لیڈر سے سفارش کروانے کی قیمت ادا کرنے کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ گذشتہ مہینے میری بھانجی نے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا مطالبہ کیا تو میں نے کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کا کمیشن ایجنٹ بننے کی بجائے حکومت سندھ کے ایک اہلکار سے تعلق کا سہارا لینے کی ٹھانی اور اسے فون کرڈالا۔ اتفاق سے یہ حضرت بھی سندھ پولیس کے افسر تھے۔ حیدرآباد کی ربڑی کی مٹھاس سے بھری آواز میں فون پر ہی سندھی ادب و آداب کا اظہار کیا اور ڈرائیونگ لائسنس برانچ ناظم آباد کے ایک افسر سے رابطے کے بعد وہاں جانے کا کہا۔

اگلے روز ہی بہنوئی اپنی بیٹی سمیت ناظم آباد لائسنس برانچ پہنچ گئے۔ متعلقہ افسر سے ملاقات اور ضروری دستاویزات، تصاویر اور انٹرویوز کے صبر آزما مرحلوں سے گزرنے کے بعد شام گئے بھانجی کا ڈرائیونگ لائسنس مل گیا لیکن مبلغ چھ ہزار روپے سکہ رائج الوقت کے عوض! رات کو بہنوئی نے فون کرکے شکریہ ادا کیا اور تفصیل بتائی تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جان مال عزت آبرو کی قربانی دی تھی؟

دماغ یکدم سالوں پیچھے امریکہ کے شہر اٹلانٹک سٹی کے تاج محل کیسینو جا پہنچا۔ جوں جوں تاج محل کیسینو اٹلانٹک سٹی کے واقعات یاد آنا شروع ہوئے اکبر زمیں میں غیرت قومی میں گڑتا چلا گیا۔ ماضی میں یونیورسٹی کے دوستوں کے بہت اصرار پر امریکہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ٹیکساس کے مختلف شہروں، ناسا، گلویسٹن بیچ کی دنیاوی جنتوں سے اکتا کر حسب پروگرام پاکستان واپسی کے لئے نیو یار ک پہنچا۔ اقوام متحدہ کے دفاتر، مجسمہ آزادی کے بعد دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے دارلخلافے واشنگٹن میں بھی جی نا لگا تو واپسی کی ضد کی لیکن ہوئی کمپنی کے اصول و ضوابط کے مطابق میں مخصوص مدت سے پہلے امریکہ سے باہر سفر نہیں کر سکتا تھا۔ سو دوستوں اٹلانٹک سٹی کا پروگرام بنایا۔

شام دھلنے کے بعد اٹلانٹک سٹی پہنچے تو وہاں جیسے دن کا سماں تھا۔ کیسینو ز کا شہر روشنیوں میں نہایا ہوا ہر طرف قہقہے، نوجوان جوڑے اور بس وقت جیسے اٹلانٹک سٹی میں آکر رک سا گیا تھا۔ گاڑی پارک کرکے جیسے ہی روشنیوں کے ہنگام میں اترے تو سامنے تاج محل کیسینو تھا۔ ابھی اندر داخل نہیں ہوئے تھے کہ تین چار لڑکیاں سامنے آگئیں سب کی زبان پر دعوت ہی دعوت تھی میرے ڈاکٹر دوست نے ایک لڑکی سے بات کی اور میرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما کر تاج محل کیسینو کے ہجوم میں گم ہوگیا۔

حیرت ہوئی کہ وہ لڑکی جس نے اپنا نام مارگریٹ بتایا میرا ہاتھ پکڑے ایسے چل رہی تھی جیسے دیسی میلوں ٹھیلوں میں مائیں بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے مضبوطی سے پکڑے رکھتی ہیں۔ چند ہی منٹوں بعد ایک موٹل میں داخل ہوتے ہوئے اس نے پوچھا کہاں سے آئے ہو میرے جواب دیتے دیتے ہم موٹل کے فرسٹ فلور پر پہنچ چکے تھے، مارگریٹ نے پرس سے چابی نکالی اور ایک کمرہ کھول کر میرا ہاتھ تھامے کمرے میں داخل ہوگئی۔ میں ابھی تک اردو اور انگلش کے مقابلے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اس سے پوچھوں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں میں تو اس شہر میں صرف گھومنے آیا ہوں۔

مارگریٹ نے پرس ایک طرف پھینکا، اور شرٹ اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو میں نے دیسی انگلش کی مدد سے اسے کہا کہ بی بی میں ایسے کسی مقصد سے یہاں نہیں آیا۔ تم میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچتی ہوئی یہاں تک لے آئی ہو لیکن مجھے واپس وہین چھوڑنا پڑے گا کہ مجھے صرف وہی جگہ یاد ہے جہاں دوستوں نے مجھے تمہارے حوالے کیا تھا۔ مارگریٹ حیران ہوئی مجھ سے پوچھا Are you OK MAN؟ میں نے جوابا کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اسے زیادہ کچھ نہیں تم نے جتنے پیسے لینے ہیں لے لو مجھے واپس وہیں پہنچا دو۔

One hundred dollars، میں نے ایک سو ڈالر کا نوٹ اسکے ہاتھ پر رکھا اور کمرے کے دروازے کی طرف لپکا۔ مارگریٹ نے سو ڈالر کا نوٹ اپنے پرس میں رکھا اور پرس سے پچاس ڈالر کا نوٹ نکال کر میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولی You know i have to pay the rent of this room۔ کہاں اٹلانٹک سٹی کی مارگریٹ جس نے پچاس ڈالر صرف کمرے کے کرائے کے رکھے اور کہاں ایک سیاسی لیڈر کی سفارش پر تین ڈرائیونگ لائسنس بارہ ہزار میں اور حکومت سندھ کے اہلکار کی سفارش پر ایک ڈرائیونگ لائسنس کی فیس چھ ہزار روپے وصول کرتے ہوئے کسی نے نہیں کہا سور ی جناب ڈرائیونگ لائسنس کی فیس صرف اٹھارہ سو ہے باقی تو میں نے کمرے کا کرایہ ادا کرنا ہے۔

کاش اکبر کہیں آس پاس ہوتا غیرت قومی سے دوبارہ زمین سے باہر نکل آتا۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz