Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ahsan Iqbal
  4. Wifaq Ul Madaris Alarbia Aur Wazir Ba Tadbeer

Wifaq Ul Madaris Alarbia Aur Wazir Ba Tadbeer

وفاق المدارس العربیہ اور وزیر با تدبیر

جب کوئی نطام انسان اپنی عقل وخرد کو استعمال کر کے تشکیل دیتا ہے، تو معاشرے کے افراد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس نظام کی تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس با ت کو بھی مد نظر رکھیں کہ اس نظام کو انسان نے تشکیل دیا ہے، اور انسان، انسان ہوتا ہے، ایک غلطی کا پتلا ہے، وہ خدا نہیں جو عیب سے پاک ہو۔ اور انہی باتوں کے پیش نظر نظام کو قبول کیاجاتاہے، کہ انسان سے کوتاہی ہوتی ہے، لیکن غلطی وہ بری جو جان بوجھ کر کی جائے، جو انجانے میں ہوجائے اس پر تنقید ضرور کیجئے لیکن تحقیر اور تذلیل کی حدود کو نہیں چھونا چاہیے۔ چلتے نظام میں پھرتا اور بھٹکتا انسان لاکھ برائیوں کے باوجود اپنی آغوش میں خوبیوں کے موتی چھپائے ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر کو دیکھ کر باطن پرکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔

بات طویل ہو رہی ہے خیر اصل مقصدیہ تھا کہ پاکستان میں دین اسلام کی برسوں سے خدمت کرنے والے تعلیم بورڈ وفاق المدارس العربیہ میں امتحانات جو کہ20 مارچ بروز ہفتہ سے شروع ہوئے اور بروز جمعرات 25 مارچ کو اختتام پذیر ہوئے۔ ان امتحانات میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار کےقریب طلبہ و طالبات نے شرک کی، ان امتحانات سے قبل خوش قسمت والدین کی باسعادت اولاد نے حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ان کی تعداد 74605 بتائی جاتی ہے۔

یہ دوسرا سال ہے کہ وفاق المدارس نے انتہائی سخت حالات میں بھی امتحانات کا پر سکون انعقاد کر کے اپنا لوہا پھر منوا لیا، اور اس بات کیا ثبوت پیش کیا کہ پاکستان میں نظام تعلیم کے اعتبار سے وہ لاثانی ہے۔ گزشتہ برس کرونا وائرس کے باعث کچھ تاخیر کا سامنا رہا لیکن جوں ہی حالات کچھ بہتری کی جانب گامزن ہوئے تو با صلاحیت ناظمیں نے تمام ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے امتحانات کے انعقاد کا کامیاب فیصلہ کیا، اور یوں امتحانات بھی ہوگئے اور طلبہ کا وقت بھی ضائع ہونے سے بچ گیا۔

اس سال بھی امتحانات سے قبل اور دوران کچھ حالات ایسے تھے کہ جہاں تمام تعلیمی اداروں کو بندکرنے کا سوچا جا رہا ہے، اور کئی ادارے بند بھی کئے جاچکے ہیں، اور جو امتحانات ملتوی ہوئے وہ اپنی جگہ، ان حالات میں ایک دفعہ پھر وفاق المدارس نے پورے پاکستان میں کامیابی سے تعلیمی مراحل کو طے کیا۔ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس دوران کسی قسم کا نہ تو کوئی ہنگامہ برپا ہوا، نا پاکٹ برآمد ہوئے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ایک جگہ بھی کرونا کیس سامنے نہیں آیا۔

البتہ ان مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک مشکل یہ ضرور پیش آئی کہ امتحانات کے دوران کچھ پرچہ جات لیک ہو ئے، اور ہر طرف سے اس تعلیمی بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کچھ اپنے بھی غیروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے دکھائی دیے، ان کی خدمت میں صرف اتنا کہوں گا ؛

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے

یوں اپنوں اور پرائیوں نے بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے ایسے حالات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جس میں اس تعلیمی بورڈ کے نام پر کیچڑ اچھالا جا سکے اور کچھ نازیبا حرکات کی خبر یں بھی سننے کو ملیں، لیکن بحمد اللہ ایسے تمام رویوں کو تب منہ کی کھانی پڑی جب وفاق المدارس العربیہ کے وزیر باتدبیر کی جانب سے ان حضرات کو ایک بہترین سر پرائز پیش کیا گیا۔

آپ ملک کے کسی بھی تعلیم بورڈ یا امتحانی بورڈ کا جائزہ لیجئے، پرچے لیک ہوجاتے ہیں، اور یوں ان کا لیک ہونا ایک ایسا معمہ بن جاتا ہے جسے مہینوں حل کرنے میں لگ جاتے ہیں، زیادہ دور کی بات نہیں NTS کی مثال ابھی تازہ ہے، متاثرین کے ساتھ دو منٹ کی نشست اختیار کریں، اور ان کے دکھڑے سنیں، فیسیں جمع کرا کر بھی ابھی تک کوئی پرسان حال نہیں، اور مزید کتنا وقت لگ جائے اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، تب حالات اور بھی سنگینی کی جانب بڑھ جاتے ہیں جب اہل حل و عقد کی تمام تر توجہ اقتدرا کی کھینچا تانی میں مرکوز ہے۔

وفاق المدارس کا پرچہ لیک ہوا، یہ عالمیہ سالم دوئم (ایم اے) جسے دورہ حدیث شریف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کلاس کے نصاب میں موجود سنن ابی داؤد (حدیث کی شہرہ آفاق کتاب) کا پرچہ رات کو لیک ہوا، صبح پورے پاکستان میں اپنے فکس ٹائم پر نیا پرچہ پاکستان کے تمام امتحانی مراکز میں موجود تھا، اور راتوں رات معاملہ کو یوں سلجھا دیا گیا جیسے کبھی الجھا ہی نہ ہو۔

پرچہ لیک ہونا یقینا کسی بھی تعلیمی اور امتحانی بورڈ کی کارکردگی عیاں کرنے کو کافی ہوتا ہے، اس کی کارکردگی اور منتظمین کو کھٹن مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور پھر تنقید بھی تب بنتی ہے جب غلطی پر "مٹی پاؤ" کا فارمولہ استعمال کیا جائے، لیکن جب غلطی کے ادراک پر فورا کارروائی کی جائے، اس غلطی کی جڑ کو ہی سرے سے اکھاڑ پھینکا جائے، تب انسان اگر کچھ اچھا نہ بھی کہہ سکے تو کم از کم ایسے رویے اپنانے سے گریز ضرور کیا جانا چاہیے جس میں تنقید سے زیادہ انسان کی ذاتی بغض و عناد کی آمیزش کی بو آنے لگے۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat