1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ahsan Iqbal/
  4. Riyasat e Madina Ke Khad O Khaal

Riyasat e Madina Ke Khad O Khaal

ریاست مدینہ کے خدو خال

جب ہم کسی فلاحی ریاست کے متعلق گفت و شنید کرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ میں جس ریاست کا تصور سب سے پہلے آتا ہے وہ "مدینہ کی فلاحی ریاست" ہے۔ جو صرف اسلامی تاریخ میں ہی نہیں، بلکہ انسانی تاریخ میں بھی ایک مثالی اور انفرادی حیثیت کی حامل ہے، جسے آج سے چودہ سو سال پہلے آپﷺ نے مدینہ میں قائم کیاتھا۔ اس دن سے آج تک جو بھی ریاست اپنے ریاستی پہلو کے اعتبار سے مثالی ریاست کہلائی، اس میں ریاستِ مدینہ ہی کے کچھ نہ کچھ اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ آج بھی اگر ریاستِ مدینہ کی خصوصیات کو سامنے رکھ کر کسی ریاست کو قائم کیا جائے، یا قائم شدہ کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست قرار دینے کی سعی کی جائے تو بعید نہیں کہ انسانیت اس کے سائے تلے جمع ہونے میں ہی خیر جانے گی۔

فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کی کاوشیں مکی دور میں ہی شروع ہو چکی تھیں، لیکن قریشی بالادستی اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی نظر آتی ہے، قدم قدم پر رسولؐ اور اصحابِؓ رسولؐ کو درد ناک مراحل کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ صحابہ کو جوابی کارروائی کی اجازت نہیں تھی، لہذا صبر کا دامن ہی وہ واحد دامن تھا جسے تھامنے کی تلقین آپﷺ کی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جاتی رہی۔ بالآخر ہجرت مدینہ کا حکم نازل ہوا۔

ہجرت سے قبل مدینہ کے مسلمانوں کے داخلی انتشار کی کیا کیفیت تھی؟ اس کی ایک ہلکی سی جھلک کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ "اوس" اور "خزرج" مسلمان ہو چکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے آپس میں شدید اختلافات تھے۔ قبیلہ "اوس" کے لوگ "خزرج" کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے، اور "خزرج" والے کسی "اوسی" امام کے مقتدی بننے پر رضا مند نہ تھے۔ بالآخر اس مسئلہ کا حل یہ نکالا گیا کہ مکہ سے امام لایا جائے، جس کے پیچھے دونوں فریقین باجماعت اداکرنے پر رضا مند تھے۔

اس واقعہ سے اتنا اندازہ لگانا کافی ہوگا کہ جہاں مسلمانوں کے داخلی انتشار کی یہ کیفیت ہو وہاں غیر مسلم کس قدر آپے سے باہر ہوں گے۔ اورایک ایسی ریاست کا قیام کس قدر مشکل ہوگا جس کا مقصد دین کی سر بلندی، انصاف کی بالادستی، انسانی اقدار کا تحفظ، مذہبی رواداری، اور حق، حقدار تک پہنچانا تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام اہلیان مدینہ کو ایک ایسی سیاسی وحدت میں تبدیل کرنا تھاجس میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں کسی رنگ، نسل، مذہب، فرقہ کو کوئی ترجیح حاصل نہ تھی۔

چنانچہ مدینہ پہنچ کر آپ ؐ نے جو اوّل کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، جس کی حیثیت بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک فوجی ہیڈکوارٹر، ایک سیکرٹریٹ اور مرکز کی سی تھی، جس میں روز مرہ امور کے متعلق آپؐ سے راہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ اور تمام معاملات (چاہے وہ وفود سے ملاقات کے متعلق ہو ں یا کسی اہم معاملہ پر مشاورت کے متعلق) مسجد نبوی میں ہی طے پاتے۔

اس کے بعد مہاجرین و انصار کے معاشی مسائل کے حل کی طرف آپؐ نے توجہ فرمائی۔ مہاجرین کی آمدسے مدینہ کو ہنگامی صورتحال کا سامنا تھا۔ دوسری طرف انصار کی مالی حالت بھی یکساں نہ تھی۔ آپؐ نے اس مسئلہ کا حل مواخات کی صورت میں نکالا۔ ویسے مواخات کے لفظ کو سن، پڑھ یا لکھ کر گزر جانا نہایت آسان ہے، لیکن اس کی عملی صورت میں کتنی قربانیاں چھپی ہیں، آج کا مادیت زدہ معاشرہ اس کے تصور سے بھی قاصر ہے۔

یہاں مواخات کے ایک اور پہلو پر بھی محققین نے روشنی ڈالی ہے کہ آپؐ کی آمد کے وقت یہود کی آبادی مدینہ میں چالیس سے پچاس فیصد تھی، وہ مالی لحاظ سے بھی عربوں پر حاوی تھے۔ ان کے تین مشہور قبیلے بنو قینقاع، بنو نظیر اور بنو قریظہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بنو قینقاع زیور سازی اور سودی قرضہ دہی میں، بنو نضیر زراعت میں، اور بنو قریظہ انتہائی جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ جوتا سازی و فروشی میں مشہور تھے۔ گویا مدینہ کی معاشی سرگرمیوں پر یہودی پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ لیکن آپؐ نے مہاجرین و انصار میں سے کسی کو بھی انتہائی سخت حالات کے باوجود یہود سے سودی قرضہ لینے کا مشورہ اور جازت نہیں دی، بلکہ باہمی تعاون اور بھائی چارگی سے معاشی حالات کو مستحکم کیا، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہےکہ ایک فلاحی ریاست کسی صورت سود کا سہارا لے کر پروان نہیں چڑھ سکتی۔ یہ سود سے متعلق ایک عملی اقدام تھا، اس کے بعد قرض حسنہ کو رائج فرمایا، اور جب صحابہ کی معاشی حالت میں کچھ بہتر ی آئی، تو سود کے خلاف قولی اقدام کرتے ہوئے سود پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔

اگلا مرحلہ مدینہ میں قیام پذیر مسلم اور غیر مسلم اقوام کے باہمی اتحاد کا تھا۔ بظاہر ایسے اقوام کو ایک وحدت میں جوڑنا نہایت مشکل تھا جن کا مذہب الگ ہو، عقائد الگ ہوں، رسم و رواج مختلف ہو۔ آج اپنے اردگرد ایک سرسری نظر ڈالنے پر معلوم ہوتا ہے آج بھی ہمیں کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ہر باشعور انسان اس معمہ کے حل کے واسطے اپنے بغل میں کوئی نہ کوئی تجویز رکھتا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہونے کا حقدار خود سے زیادہ مخاطب کو سمجھتا ہے۔

لیکن یہ آپﷺ کی کامل بصیرت ہی کا کرشمہ ہے کہ آپؐ نے ایک سیاسی معاہدے کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل فرمایا، جسے ہم "میثاق مدینہ" کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دنیا کا اوّل تحریری آئین ہی نہیں، بلکہ نافذشدہ تحریری دستور بھی کہلاتا ہے۔ اس کامتن پہلی دفعہ سیرت ابن ہشام میں ابن اسحاق نے نقل کیا، اور اس معاہدے کی کل 37 شقیں سیرت ابن ہشام میں درج ہیں۔ اگرچہ آپؐ کی بعثت سے پہلے بھی ہمیں حکمرانی اصولوں پر لکھی گئی تحاریر کے اثرات ملتے ہیں، جیسا کہ "منوسمرتی" (500 ق، م) یہ ایک راجہ کے فرائض پر مشتمل کتاب ہے، اس کے علاوہ کوتلیا کی "آرتھ شستری" (300ق، م) اور "ارسطو" کی تحاریر کو سیاسی تحاریر کہا جاتا ہے، لیکن محققین کے نزدیک ان تمام دستاویزات کی حیثیت ایک مشاورتی اور نصیحتی نسخہ سے زیادہ نہیں، اور نا ہی یہ تحاریر اس قابل ہیں کہ ان کو کسی منظم ریاست کا قابل نفاذ دستور کہا جا سکے۔

میثاق مدینہ کے دو اہم مقاصدتھے، ایک یہ کہ بیرونی قوتوں سے حفاظت رہے۔ دوسرا یہ کہ اندرونی اتحاد و یگانگت بھی کسی قسم کے انتشار کا نشانہ نا بنے۔ آپؐ نے مہاجرین، انصار اور یہود کے درمیان تحریری معاہدہ طے فرمایا، جس میں مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے ہر قسم کے حقوق کا برابر خیال رکھا گیا، ان کو اپنے اپنے دین میں مکمل آزادی دی گئی، ان کے مقامی رسم و رواج کی مکمل حفاظت کی گئی، انہیں دین اور مذہب سے قطع نظر ایک شہری کی حیثیت سےتمام حقوق مہیا کئے گئے، ان کے جان مال عزت آبرو کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری تھی، ریاستِ مدینہ میں ایک جان کی کیا قیمت تھی، اس کا اندزاہ اس وعید سے لگائیے کہ آپؐ نے فرمایا "من قتل معاھدا فی غیر کنھہ، حرم اللہ علیہ الجنۃ" یعنی "جس نے کسی غیرمسلم شہری کو ناحق قتل کیا اس پر جنت حرام ہے"۔ اور یوں مذہبی اور اعتقادی وحدت کے علاوہ سیاسی وحدت کا قیام عمل میں آیا، جس میں تمام اہل میثاق برابر شریک تھے۔

اسی میثاق کی بدولت یہ پہلوبھی منظر عام پر آیا کہ ریاست مدینہ کے زیر سایہ بسنے والی ایسی اقوام بھی تھیں جوآپؐ کی نبوت اور اسلام کو تو تسلیم کرنےسے قاصر تھیں، لیکن آپؐ کو بطور حکمران اور اسلام کو بطور نظام تسلیم کرنے میں انہوں نےکسی قسم کی کوئی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اگر ہم اس حقیقت کی مزید گہرائی میں اترنے کی ادنی ٰسے کاوش کریں، اور جاننے کی اپنی تئیں سعی کریں آخر یہ کس قسم کا نظام حکومت تھا کہ اپنے تو رہے اپنے بیگانےبھی سر تسلیم خم کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ تو تاریخ کے اوراق ہمیں بے شمار ایسے واقعات کی طرف متوجہ کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی آغوش میں ریاستِ مدینہ کی ایک نمایا خصوصیت لئے ہوئے ہے۔ جن میں سے چند کا ذکر ہم اگلے بلاگ میں کریں گے۔

Check Also

Qismat Par Inhesar

By Asfar Ayub Khan