Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ahsan Iqbal
  4. Riyasat e Madina Ke Khad O Khaal (2)

Riyasat e Madina Ke Khad O Khaal (2)

ریاست مدینہ کے خدو خال (2)

حسب وعدہ آج ہم ریاست مدینہ کی چند خصوصیات پر قلم کشائی کرنے کی جسارت کرنے لگے ہیں۔ آج ہم بھی ایک ریاست کے سائے تلے جی رہے ہیں، اسکے آئین میں بھی ایسی کئی شقیں ہیں اگر ان پر ہی کما حقہ عمل کر لیا جائے تو یقیناً ریاست مدینہ کے ماڈل کی طرف بڑھتے قدموں کو تقویت مل سکتی ہے۔

اب میں ریاست مدینہ کی بات کرتا ہوں کہ ریاست مدینہ کاکوئی بھی فرد اپنا قانونی حق محفوظ رکھتا تھا۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ملاحظہ فرمائیں۔ ایک صحابی، یہودی کے قرض دار ہو گئےتھے، چیف جسٹس آف ریاست مدینہ آپؐ تھے، اس معاملہ کو حضورؐ کی عدالت میں پیش کیا گیا، اس یہودی نے کہا میں اپنا قرض ابھی وصول کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ صحابیؓ کو اپنا تہ بند اس قرض کی پاداش میں دینا پڑا۔ ایک صحابی کی فضیلت سے کون ناواقف ہو سکتا ہے، لیکن ریاست ِمدینہ میں ایک یہودی کے قانونی حق کے تحفظ کی خاطر انہیں مجبوراً اپنا تہ بند کھول کر دینا پڑتا ہے۔ جو قانونی بالادستی کی ایک واضح مثال ہے۔

ایک قدم اور آگے بڑھیں، جب یہود نے میثاق مدینہ یعنی ریاست کے آئین کی خلاف ورزی کی توانہیں مدینہ سےجلا وطن کر دیا گیا، جس کے بعد وہ خیبر میں جابسے۔ جب وہاں بھی وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو خیبر کو بھی فتح کر لیا گیا، اور ان کے ساتھ پیداوار کے مخصوص حصہ پر معاملہ طے ہوا تھا، اس تقسیم کی ڈیوٹی عبد اللہ بن رواحہؓ کے سپرد کی گئی تھی۔ وہ تشریف لائے، اور اس انصاف سے اس تقسیم کے عمل کو سر انجام دیا کہ خیبر کے یہودی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: "خدا کی قسم! اسی عدل پر زمین اور آسمان قائم ہیں"۔ یہ انصاف ریاست مدینہ کے ایک وزیر، مشیر یا گورنر کا انصاف تھا۔ تو ریاست مدینہ کے انصاف کا پیمانہ کیا ہوگا اس کا اندازہ خود لگا لیجئے۔

ایک قدم مزید آگے بڑھیے! تاریخی روایات ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ حضرت زید بن ثابت ؓ سے قبل آپؐ کا محرر ایک یہودی تھا، جو آپؐ کی جانب سے عبرانی اور سریانی زبان میں خط و کتابت کا کام سر انجام دیتا رہا، لیکن بنو قریظہ کی جلا وطنی پر یہ محرر بھی مدینہ سے چلا گیا تھا، تو اس کے بعد آپؐ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ وہ عبرانی اور سریانی زبان سیکھ کرخط و کتابت کے عہدہ کو سنبھالیں۔ اس کے علاوہ حضرت عمرو بن امیہ الضمری ؓ کے متعلق ذکر ہے کہ آپؐ نے انہیں قبولِ اسلام سے قبل حبشہ کے نجاشی کے پاس بطور سفیر بھیجا تھا۔ یہ روایات بھی ریاست مدینہ کی ایک اہم خصوصیت یعنی "میرٹ" کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس کی رعایت یہاں تک کی گئی کہ اگر کسی عہدے کی اہلیت کسی غیر مسلم میں ہے، اور وہ آپ کے عہد و پیماں کا پاس رکھتا ہے، تو وہ عہدہ اسے محض فطری صلاحیت کی بنیاد پر سپرد کیا گیا۔

اسی طرح تاریخی روایات ہمیں " مخیرق" نامی یہودی کا پتا دیتی ہیں، جو جنگ اُحد میں مسلمانوں کی جانب سے لڑا اور جان کی بازی ہار گیا۔ آپؐ نے اس کے متعلق فرمایا کہ" مخیرق بہترین یہودی تھا" اور ایسے تمام یہودی جنہوں نے معاہدات کی پابندی کی ان کو عزت و احترام سے نوازا گیا۔ یہ واقعہ بھی ریاست مدینہ کے ایک مثبت پہلو کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے، کہ کوئی انسان محض کسی مذہب یا پارٹی سے تعلق رکھنے کی بنا پر حقیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی اخلاقی تنزلی کا اظہار نہ کرے، بلکہ اسے اپنے اعمال کی وجہ سے عزت اور اپنے کئے کی وجہ سے ذلت کاسامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقہ اور پارٹی سے کیوں نہ ہو۔

اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ جب اسلامی سلطنت کی حدود میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، کچھ مزید غیر مسلم علاقے بھی سلطنت کے زیر سایہ آگئے تھے، انہی میں سے یمن کا علاقہ نجران بھی تھا، نجران کے عیسائی قبولِ اسلام سے منکر رہے، لیکن پھر بھی انہوں نے اسلام کی حاکمیت کو تسلیم کیا، چنانچہ انہیں بھی گرجا گھروں کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی گئی، اور گرجا گھروں کے سردار کا انتخاب بھی انہی کے سپر د تھا۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب انہوں نے ریاست کے حاکم اعلیٰؐ کے غیر جانب دار انصاف کا مشاہدہ کیا، تو وہ آپؐ کی خدمت میں چلے آئے اور اپنے علاقے کے لئے ایک جج کا مطالبہ کیا، مجلس میں حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ بھی تشریف فرما تھے، آپؐ نے ان کا نام لیا اور ان کو امین امت کا لقب دے کر ان کے ساتھ روانہ فرمایا۔ انہوں نے اپنی یہ ذمہ داری اس قدر خوبی سے نبھائی کہ اس علاقہ میں اسلام پھیلنے لگا، اور بہت سے عیسائی مسلمان ہو گئے۔

یوں نتیجتاً مدینہ خود ایک مملکت ہونے کے بجائے ایک وسیع ترین مملکت کا دارالخلافہ بن گیا، ڈاکٹر حمید اللہ نے کچھ اعداد وشمار کا ذکر کیا ہے، جس کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔ مدینہ میں دس سالہ حکمرانی کرنے کے بعد جب آپؐ کا انتقال ہوا تو اس وقت اسلامی سلطنت30 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھی، یا بالفاظ دیگر پاکستان جیسے چار ممالک اس سلطنت کا حصہ تھے۔ یعنی دس سال میں روزانہ اوسطاً آٹھ سو پینتالیس(845) مربع کلو میٹر، سلطنت کے رقبہ میں اضافہ ہوتا رہا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ علاقوں کو جنگ کے ذریعہ بھی فتح کیا گیا، لیکن اس وسیع ترین رقبہ پر سلطنت کے قیام کے دس سالہ دورانیہ میں دشمن کے 240 آدمی بھی قتل نہیں ہوئے۔

آج بھی پوری دنیا ایک ایسے ہی نظام کی تلاش میں سر گرداں ہے جس کے سائے تلے انسانیت سکھ کاسانس لے سکے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ "مولانا عبید اللہ سندھی" اپنی تفسیر "الہام الرحمٰن" میں روسی انقلاب کے متعلق لکھتے ہیں "روسی انقلاب ایک اقتصادی انقلاب ہے، جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ حیاتِ اخروی سے کوئی سروکار رکھتا ہے۔ ہم نے ان کی صحبتوں میں بیٹھ کر نہایت لطیف طریق سے "شاہ ولی اللہ محدث دہلوی" کا وہ پروگرام انھیں بتایا جو "حجۃ اللہ البالغہ" میں مذکور ہے۔ جب انھوں نے ہم سے پوچھا کہ اس پروگرام پر کوئی قوم عمل بھی کرتی ہے؟ تو ہمیں اس کا جواب نفی میں دینا پڑا تو انھوں نے کہا کہ افسوس اگر کوئی ایسی قوم ہوتی تو ہم ان کا مذہب اختیار کر لیتے"۔

معلوم ہوا کہ انسانیت کس قدر انسان ہی کے بنائے گئے نظاموں سے تنگ آ چکی ہے، وہ کسی روشنی کی تلاش میں ہے، وہ اللہ کی زمین پراللہ کانظام دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ محض قولی تعارف سے قائل ہونے والے نہیں ہیں، ہم کسی بھی مفکر اسلام کی تشریحات انتہائی دلنشین پیرائے میں ان کے سامنے رکھیں، ان کا آخری مطالبہ ایک نمونہ ہوگا۔ وہ عملی مثال مانگتے ہیں، وہ مسلمانوں سے ان کے نظام کی مثال مانگتے ہیں، ہمیں مثال بننا ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان اس مثال کو قائم کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ اس کی کیا وجہ سے؟ آپ بھی سوچیں، ممکن ہے قلیل تفکر آپ کو بھی حقیقت کی شناسائی تک پہنچا دے۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat