Aao Aasman Sar Pe Uthate Hain
آؤ آسمان سر پے اٹھاتے ہیں
وہ دونوں انسان تھے، ان دونوں نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر یا کسی نا کسی موڑ پر غلطی ضرور کی ہو گی، انہیں اپنے انجام کا علم تھا، وہ جانتے تھے یہ زندگی ہے جس کی انتہا موت پر ہوتی ہے اور اس پر ان کا کامل یقین بھی تھا، ان دونوں کی زندگی الگ الگ ڈگر پر چل پڑی، وہ دونوں دین سے وابستہ تھے، اسی تعلق کی بنا پر لوگ انہیں مولوی و ملا کہتے تھے، لیکن ہر بندہ اس لبادے میں شاید اس منصب کا حق ادا نہیں کر سکتا، آج ہزاروں لوگ یہ لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں، ان کی نسبت کسی سے ہو جانا الگ چیز، لیکن وہ خود کتنے پانی میں ہیں، ان کی دنیا و آخرت کے سنورنے کا دارومدار اسی پر ہے۔ وہ دونوں اس بات کو بھی بخوبی جانتے تھے اور صرف وہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر عاقل انسان اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہر انسان کو اپنا کیا ہی بھگتنا پڑتا ہے، کسی انسان کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
پچھلے دنوں دوران درس استاد محترم سے ایک قیمتی جملہ سننے کو ملا کہ: "فطرت تربیت پر غالب آ جاتی ہے جب تک کہ تربیت پر استقامت سے عمل نہ کیا جائے۔"
ان دونوں نے بھی تربیت حاصل کی تھی، معاشرے کی نظر میں وہ ایک تھے، لیکن تربیت پر عمل کی دوڑ نے ان میں انیس بیس کا نہیں بلکہ زمین و آسمان کا فرق کر چھوڑا تھا، ان کی صف ایک تھی لیکن حقیقت میں وہ محمود و ایاز سے بھی زیادہ فرق کے حامل تھے، ان کا عمل مختلف تھا اسی وجہ سے ان میں سے ایک مر کر بھی زندہ رہا اور دوسرا زندہ رہ کر جینے سے محروم ہوا۔
آپ میرے ساتھ یہاں تک آئے، آپ سمجھ رہے ہوں گے شاید میں کسی فرضی دنیا کی تخیلاتی کہانی پیش کرنے جا رہا ہوں، لیکن آپ مجھے بتائیں! جب مجھے اپنے ارد گرد بیسوں قصے سننے کو ملیں، میری آنکھیں ہر روز ایک نیا تماشا دیکھیں، تو مجھے فرضی دنیا میں داخل ہونے کی فرصت ہی نہیں ملتی، مجھے چہرے عنوان دے جاتے ہیں، مجھے قصے فرمان دے جاتے ہیں، مجھے کہانیاں جھنجوڑ جاتی ہیں، میری فکر سہم جاتی ہے، میرا قلم کانپ اٹھتا ہے، مجھے کبھی اچھے کردار گھٹیا روپ میں مل جاتے ہیں تب مجھے خود پر شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کبھی عزت کی آغوش میں جینے والے بدکرداروں سے آمنا سامنا ہو جاتا ہے۔
اللہ معاف کرے! نجانے رہتی زندگی میں ہمیں کن کن مراحل سے گزرنا پڑے، ہمارے ساتھ کیا کیا تماشے ہوں، کوئی کچھ نہیں جانتا، ہم کمزور ہیں، آج اگر ہم ولی ہیں تو کل شیطان کے والی ہوں گے، آج ایک ٹہنی پر تو کل کسی دوسری شاخ پر اچھل رہے ہوں گے، یہ ہماری کمزوری ہے۔ میں آج کسی کو برا کہہ سکتا ہوں، لیکن مجھے علم نہیں کہ کل میں خود کو کہاں کھڑا پاؤں، لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے، آج آپ جو ہیں شاید کل کا دن آپ کی اس حیثیت کو جوتے کی خاک بنا ڈالے، یہ دنیا ہے، ایک نظام ہے، چل رہا ہے، گزر رہا ہے اور رفتہ رفتہ اپنی انتہا کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میری آج کی تحریر کے مرکزی کردار دو انسان ہیں، ایک عزیز الرحمن نامی شخص اور دوسرے شخص کا نام عمر ابراھیم ہے۔
دونوں بظاہر ایک ہی شعبہ سے وابستہ تھے جسے معاشرتی اصطلاح میں دین دار طبقہ کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں لاہور میں تھے، انہی دونوں سے وابستہ دو واقعات سننے کو ملے، پہلے شخص سے متعلق واقعہ ایسا ہے کہ شاید اس کے رونما ہونے سے تو زمین بھی تھرا اٹھی ہو گی، جبکہ دوسرا شخص ایسا تھا کہ زمین اسے اپنی آغوش میں لینے کے لیے نجانے کب سے منتظر رہی ہو گی۔
پہلے واقعے کے متعلق میں کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے میڈیا پر بہت ہلہ گلہ دیکھا، اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ وقت علماء اور مدارس کے لیے ایک بہت نازک وقت ہے، مجھے اس شخص کی کوئی پرواہ نہیں اس لیے کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ فطرت تربیت پر غالب آ جاتی ہے جب تک کہ تربیت پر پختگی سے عمل نا کیا جائے، لیکن مجھے پرواہ ہے کچھ ایسی ہستیوں کی جنہیں کچھ لوگ ایک شخص کی وجہ سے بلاوجہ میدان میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، ان کی شرافت بھری زندگی کو مشکوک بنانا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ علماء اور مدارس سے لوگ متنفر ہو جائیں اور اس سب سے ان کا مقصد پورا ہو جائے کہ ان کی نظریاتی مارکیٹیں ہر چوک چوراہے میں سر عام کھل جائیں۔
ان کے رویوں سے یوں محسوس ہوتا ہے شاید وہ کسی ایسے ہی موقع کے شدت سے منتظر تھے اور اب چونکہ انہیں یہ موقع مل چکا، تو انہوں نے خوب ہلا مچا رکھا ہے۔ بجائے اس کے کہ مجرم اور جرم کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا، جرم کے پنپنے کے تمام ذرائع کے سد باب پر زور دیا جاتا تو اس کے فوراً بعد ملک کی ایک مشہور جامعہ میں بالکل ایسا ہی ایک واقعہ رو نما نہ ہوتا، بلکہ انہوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ کچھ الگ انداز سے اٹھانا چاہا، انہی لوگوں کی جانب سے میڈیا پر بہت سی ایسی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں اس واقعہ پر چند الفاظ رسمی مذمت کے بعد ایک طویل سلسلہ علما و مدارس کے خلاف مہم چلانے پر صرف کیا جا رہا ہے۔ گویا اس واقعہ پر وہ بزبان حال یہ دعوت دے رہے ہیں کہ آؤ آسمان سر پے اٹھاتے ہیں، لیکن جب وہی لوگ لاہور کے علاقہ ڈیفنس کی مسجد کے امام و خطیب عمر ابراھیم رحمہ اللہ کی مثالی موت پر چپ سادھ لیتے ہیں، جنہیں بروز جمعہ سجدہ کی حالت میں خدا تعالی نے اپنی طرف بلا لیا تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں فالوورز کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ہر مولوی، مولوی عزیز الرحمان نہیں ہوتا، یہاں عمر ابراھیم جیسے بھی پائے جاتے ہیں۔ یقیناً ایسی مثالی موت بظاہر ان کی باعمل زندگی کی گواہی دیتی ہے، ان کی نسبت بھی علما و مدارس کے ساتھ تھی، سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔
جو لوگ قصہ اول کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اپنے ترکش کے تمام تیر علما و مدارس کی طرف کیے بیٹھے ہیں، کہیں کہیں سے صدائیں آ رہی ہیں کہ ان کو روکا جائے، ان کے مدارس بند کر دیے جائیں، والدین بچوں کو مدارس بھیجنے سے باز آ جائیں۔ انہیں بتایا جائے کہ عمر ابراھیم بھی علماء سے وابستہ ایک فرد تھا، وہ آج اس جہان فانی میں نہیں رہا مگر اس کی مثالی موت نے ہر زندہ دل میں حیات جاودانی حاصل کر لی ہے۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر انسان تو عمر ابراھیم نہیں ہو سکتا تو میں یہ کہوں گا بالکل اسی طرح ہر انسان عزیز الرحمان بھی نہیں ہوتا۔ اسی لیے کسی ایک کے جرم کی آڑ میں عمر ابراھیم جیسوں کو گھیٹنے سے اجتناب کیا جائے۔
جرم کو مجرم تک رکھا جائے، معززین اور اداروں کو برا بھلا کہنے سے پرہیز کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس میں انتشار کی راہیں مسدود ہوتی ہیں، بصورت دیگر اگر ایک طبقے کے کسی فرد کا جرم دوسرے کے لیے موقع بن جائے اور دوسرے کا پہلے کے لیے تو یہ امر نا صرف باعث تشویش ہے بلکہ ایسی فضاء واقعات کی روک تھام سے بھی قاصر ہے، اور مزید یہ کہ باہمی انتشار کی سلگتی چنگاریوں کو ہوا دے کر بھڑکانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔