Allama Muhammad Iqbal Ka Nazria Pakistan
علامہ محمد اقبالؒ کا نظریہ پاکستان
بانی نظریہ پاکستان ڈاکٹر سر علامہ اقبالؒ بیسیوں صدی کی عظیم شخصیت تھے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی شخصیت نے بیسویں صدی میں فکری انقلاب کی بنیاد رکھی۔ دنیا کو افکار کی دولت سے روشناس کرایا اور بتایا کہ خوابوں کی تعبیر اس طرح بھی ہوتی ہے۔ آپ قلم کی طاقت کا استعمال خوب جانتے تھے۔ شاعر مشرق کا خاندانی پس منظر اگرچہ برہمنوں سے ملتا ہے، لیکن بعد میں آپ کے آباء اجداد اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں حلقہ بگوش اسلام ہوا اور پھرہمیشہ اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں رہا، یہاں تک کہ آپ کے خاندان کی ہر پشت میں کوئی ناکوئی ایسا پیداہوتا رہا جس نے اسلام کی اشاعت کے لیے خدمت انجام دی۔ آپ کا انداز ِفکر اپنے اندر وسیع مفاہیم لیے ہوئے تھا، جس پر آپ نے مسلم لیگ کے اہم ترین رکن کے طور پرکام کرتے ہوئے قومی وحدت کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ آپ امت مسلمہ کے غم سے چور رہتے جس پر آپ کی نظمیں شاہد ہیں۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں پر برطانوی سامراج اور ہندوؤں کے مشترکہ مظالم نے ڈاکٹر علامہ اقبال کوتڑپا دیا، مسلمانوں کی غیروں کی غلامی انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی اوراس لیے آپ الگ وطن کے لیے کوشاں ہوگئے۔
علامہ اقبال جوں جوں اپنے تخیلات پیش کررہے تھے، مسلمانوں کے جوش وجذبے کا دریاموجزن ہورہا تھا۔ سر علامہ اقبال نے اپنے قلم سے بیداری مسلمانیت کو جگایا اور انہیں خود مختاری کی راہ دکھائی، مسلمانوں کو اپنے وطن کی نوید سنائی، اپنی سر زمین کی خوشبو سنگھائی۔ آپ کی کئی نظمیں ایسی ہیں جن میں آپ قوم وملت کو سنوارنے، انہیں سیدھی راہ دکھانے کا سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں، آپ نے نظریاتی سبق جس درد دل سے قوم کو پڑھایا اور سمجھایا، اس میں آپ خوب کامیاب ہوئے۔ آپ کے زور قلم کا اندازہ آپ کی نظموں میں بیان کی گئی تشبیہات و استعارات سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ فکر اقبال نے مسلمانوں کو متحدکیا، بلکہ آپ کی شخصی انفرادیت اور شعری طرز افکار نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ آپ کے شعری مجموعوں میں جس انداز سے قرآن و حدیث کاذکر ملتا ہے، اس سے دیگر مذاہب کے لوگ بھی اسلام کی تفہیم کی طرف راغب ہونے لگے، جو آپ کے افکار کی فتح تھی۔ آپ کیوں کی اردو، فارسی میں شاعری کرتے تھے اس لیے نوک ِقلم کی گہرائی کو سمجھنا ہر ایک کے لیے آسان نہ تھا۔
بہت لوگ فکر اقبال کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں جو کہ حضرت علامہ اقبال کی مابعد الطبیعیات سے ماخوذ ہوتی ہے۔ آپ کی مابعد الطبیعیات فکر کی تشریح کو مختلف نظریوں سے پرکھا جاتا ہے جس کے بعد فکر اقبال پر تکرار سے بچنا دشوار ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے دقیق مشاہدہ اور گہرا مطالعہ درکار ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کی بنیادی فکر اور آپ کے غیر متذلذل نظریے میں شبہے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ آپ کی اس فکر پر تاریخ کا تسلسل واضح ہے۔ لہذا فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے ایسے موضوعات کی طرف التفات ہونا ہی نہیں چاہیے کہ جس سے ان کے افکار سمجھنے میں مشکل پیش آئے۔
ارض وطن کو حاصل کرنے کا جو لاوا کئی سالوں سے فکر اقبال کی صورت پک رہا تھا وہ 1930 کو مسلم لیگ کے اجلاس میں پھٹ پڑا جس کی صدارت خود شاعر مشرق کررہے تھے۔ اسی اجلاس میں آپ نے نظریہ پاکستان قیادت کے سامنے رکھا جس کو بھر پو ر سراہا گیااور یہی نظریہ قیام پاکستان کی وجہ بنا۔ ڈاکٹرعلامہ اقبال نے خود پاکستان بنتے نہیں دیکھا اور وہ21 اپریل 1938 کو اس دنیا سے چلے گیے، لیکن آپ کی جہد مسلسل نے قوم کی غلامی کی زنجیریں توڑ دی تھیں، ایک نئی سرزمین کے حصول کے لیے سر علامہ اقبال قوم کوملی وحدت، قومی یکجہتی کا سبق پڑھا چکے تھے اور آپ نے جو منتشر قوم کو جمع کرکے ان میں اپنے وطن کا جذبہ ابھارا تھا اسی پر چل کر اپنا الگ وطن بنایا، اگرچہ اس میں ہم نے جغرافیائی فتح حاصل کی، لیکن آپ نظریاتی جنگ کے ہیرو بہت پہلے بن چکے تھے، اس لیے آپ کو نظریاتی باپ کہا جاتا ہے۔
شاعر مشرق و مغرب سر علامہ اقبال بہت متحرک انسان تھے، جس طرح انسانی زندگی حرکت وعمل کا نام ہے، اسی طرح آپ کی فکر میں بھی ہمیں حرکت وعمل کا ہر پہلو نظر آتا ہے۔ آپ نے ملت اسلامیہ کو اسی حرکت وعمل کی دعوت دی۔ علامہ اقبال کو اس بات کا یقین تھا کہ جب تک دنیا کی امامت و قیادت مرد مومن کے ہاتھوں میں نہیں آئے گی اس وقت تک انسانیت فرنگیوں کے ہاتھوں ہلاکت و بربادی سے دوچار ہوتی رہے گی۔ آپ کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ اس جہان نو کے بانی کی حیثیت سے مرد مومن آگے بڑھے اور بیمار انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرے، تاکہ انسانیت کو نئی زندگی، نئی توانائی عطاء ہو۔ ہمیں یہاں فکر اقبال کا ہر گوشہ سسکتی انسانیت کے غم میں ڈوبا ہوا ملتا ہے۔
فکر اقبال کا محور قرآن و حدیث کے بعد "خودی" تھا۔ یہ وہ ہتھیار تھا جس کی کاٹ سے آپ نے مردہ دلوں کو خودی کی روشنی سے منور کیا۔ آپ کا کلام پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے افکار میں انسانی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچاننے اور ان سے کام لینے کی کتنی تلقین موجود ہے۔ آپ نے اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ عشق کرنے اور اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی۔ آج اس عظیم انسان کی یاد میں اور ان سے محبت کی مناسبت سے آپ کے ہی لفظوں سے عقیدت کے پھول پیش کرنا سعادت جانتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ:
مشرق سے ہو بیزارنہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کاسودا بھی چھوڑدے
یورپ کی غلامی سے رضا مند ہوتو
مجھ کو تو گلہ تھ سے ہے، یورپ سے نہیں