Audio Leaks Aur Hamara Mustaqbil
آڈیو لیکس اور ہمارا مستقبل
آج کل پاکستان میں آڈیو لیکس کا ٹرینڈ زور پکڑ چکا ہے۔ ہماری قوم بحیثیت مجموعی آڈیو، وڈیو لیکس کے آنے کے انتظار میں ہوتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ لیکس اب ہمارے ہاں تفریح کا سامان ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ہر ہفتے کسی نہ کسی کی ویڈیو، آڈیو نکل آتی ہے اور ہماری قوم اس کو قومی فریضہ سمجھ کر پھیلانا شروع کر دیتی ہے۔
صرف یہ نہیں کہ یہ شئیر کی جاتی ہیں بلکہ اس پر باقاعدہ ایک ٹرینڈ بنا کر مذاق اُڑایا جاتاہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ہماری کوئی بھی بات محفوظ نہیں۔ میرے جیسا سادہ بندہ بھی کئی بار دوستوں سے بات کرتے ہوئے ڈر جاتا ہے کہ کہیں یہ بھی لیک نہ ہو جائے۔
کئی بار تو یہ بھی احساس ہوا کہ آخر "ان کو" آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ کرکے اور پھر اس کو لیک کرکے کیا مزہ آتا ہوگا، بہرحال ہم ٹھہرے معصوم ہم تو بس سوچ ہی سکتے ہیں۔
جو بات یہاں بہت زیادہ قابلِ غور ہے وہ ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ ہے۔ آڈیو لیک ہوتے ساتھ ہی دو گروہ سامنے آتے ہیں، ایک آڈیو کی مخالفت کرتا ہے اور دوسرا اس کو سچا ثابت کرنے میں دلائل دیتا ہے۔ کافی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ معاملہ تھوڑی بہت تلخی سے ہوتا ہوا گالم گلوچ تک پہنچ جاتا ہے۔
اس قوم کی ایسی ذہن سازی کے پیچھے بھی بہت محنت کی گئی ہے۔ ہمارے "مقدس ادارے" نے ففتھ جنریشن وار فئیر کے نام پر جو قوم تیار کی تھی وہ قوم انتہائی بدلحاظ، بدتمیز اور اختلاف کو نہ سننے والی پائی گئی ہے۔ آخر میں سونے پہ سہاگہ وہی ففتھ جنریشن وار والی قوم ادارے کے گلے پڑی اور وہ حال کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
خیر واپس آتے ہیں آڈیو لیکس کی گہرائی میں ڈوبے اداروں اور قوم پر۔ سوشل میڈیا کے زمانے سے پہلے شاید اس چیز کا تصور بہت کم تھا، زیادہ سے زیادہ کچھ لیک ہو بھی جاتا تھا تو چند ایک تصاویر۔ لیکن گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تقاضے بھی بدلے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بڑھتے چلے گئے، ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور آپ کے اور میرے ہاتھ میں موبائل فون تھما دیا۔ پھر آہستہ آہستہ فیسبک، واٹس ایپ اور ان جیسے بےشمار پلیٹ فارمز وجود میں آئے۔ جو "لوگ" پہلے تصویریں لیک کرتے تھے پھر انہوں نے سیاستدانوں، ججوں اور اہم عہدوں پر تعینات نمائندوں کی کالز ریکارڈ کرنا شروع کر دیں۔
یہاں اگر میں عمران خان صاحب کا نام نہیں لوں گا تو زیادتی کروں گا۔ جب وہ وزیراعظم تھے تب ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خفیہ اداروں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ میری کالز ریکارڈ کریں، ان کو سنیں تا کہ وہ میرے پر نظر رکھ سکیں۔ تب میرے جیسے ناقص العقل انسان نے کہا تھا خان صاحب! آپ یہ اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، خود ہی اپنا گریبان کسی کے ہاتھ دے رہے ہیں، کل کو یہی آگ جب آپکے صحن کو آئے گی تب آپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھیں آج وہی خان صاحب آئے روز انہی آڈیو لیکس کا شکار ہو رہے ہیں، کچھ آڈیوز تو خان صاحب کی اتنی متنازع ہیں کہ اٹھارہ سال سے زائد عمر والا بھی سنتے ہوئے منہ دوسری سائیڈ کو کرتا ہے۔ سب سے پہلی بار جب خان صاحب کی آڈیو لیک آئی تو اس میں وہ سائفر پر پروپیگنڈا کرنے کا کہہ رہے تھے، اسکے بعد تو پھر ایک لمبی فہرست ہے جس میں کئی شخصیات کو بولتے سنا جا سکتا ہے۔
عمران خان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو اگر غلطی کا احساس بھی ہو جائے تو پھر بھی وہ سدھرنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔ یہاں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کل کو عمران خان کو دوبارہ حکومت ملتی ہے تو وہ یہ تمام غلطیاں دوہرائیں گے جو وہ پہلے کر چکے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عمران خان اور اسکی غلطیاں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا لیکن میں حیران ہوں انکے سپورٹرز پر جو عمران خان کو سو خون معاف کر دیتے ہیں۔ خیر کسی بھی پارٹی کے سپورٹرز سے ہم امید ہی کیا لگا سکتے ہیں۔
کچھ دن پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ وزیراعظم شہباز شریف کو نااہل کرنے پر مشورے دے رہے ہیں، ایک اور آڈیو میں انکا بیٹا پی ٹی آئی کی ٹکٹیں بانٹتا سنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ مہینے پہلے وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی آڈیو لیک کی گئی جس میں وہ صحت کارڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے سنے جا سکتے۔
خیر بات مختصر کہ ان آڈیوز کو ریکارڈ کرکے اور پھر لیک کرنے سے کیا ہو سکتا ہے؟
میری دانست میں تو ان کا واحد مقصد لوگوں کو بلیک میل کرنا ہی ہے پھر چاہے وہ عمران خان ہو یا مریم نواز یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہو۔ ہمارا "مقدس ادارہ" اتنا طاقتور ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے یہ سب کر جاتا ہے اور کوئی پوچھتا تک نہیں۔ ہمیں اپنے پارلیمان کو مضبوط اور سیاست کو ریفائن کرنا ہوگا، دل تو کرتا ہے موجودہ سیاستدانوں کو اسکولوں میں واپس بھیجا جائے اور ان کو سول سپرمیسی کا سبق یاد کروایا جائے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایسی چیزوں کو روکیں۔
پارلیمان میں ایک کمیٹی قائم کی جائے جو بنیادی انسانی حقوق جس میں (right of privacy) بھی ہو کو رائج کرے اور ان تمام اداروں کو جوابدہ کریں جو یہ کام دھڑلے سے کر رہے ہیں ورنہ ہماری قوم اسی آڈیو لیک میں پڑی رہے گی اور سری لنکا بھی ہم سے آگے نکل جائے گا
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ!