Ulma o Mashaikh Conference, Badgumani Ka Khatma Bhi Zaroori
علماء و مشائخ کانفرنس، بدگمانی کا خاتمہ بھی ضروری

یہ بات حیران کن بھی ہے اور افسوس ناک بھی کہ ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سا غیر اعلانیہ تصور رائج کر دیا گیا ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی ادارے گویا ہمیشہ دینی مدارس، علماء اور دینی جماعتوں کے مخالف ہی ہوتے ہیں۔ جیسے ریاست کا ہر قدم مذہب دشمنی کے کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت اٹھتا ہو اور علماء و مدارس کا ہر عمل لازماً ریاست مخالف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہو، حالانکہ حقیقت اس تنگ اور منفی تصور سے کہیں زیادہ وسیع، گہری اور زمینی حقائق کے قریب ہے۔ اختلافات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور پالیسیوں پر تنقید بھی ایک حقیقت ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاستی ادارے بھی اسی مٹی کے بیٹے ہیں اور ان کی شناخت بھی اسلام اور پاکستان ہی سے وابستہ ہے۔ اسی طرح علماء اور مدارس اس ملک کی فکری و اخلاقی بنیادیں ہیں۔ یہ بدگمانیاں دراصل غلط زاویۂ نظر اور محدود سوچ کی پیدا کردہ ہیں۔
پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے اور دینی مدارس اس اساس کے محافظ ہیں۔ ریاست جس کے بھی ہاتھ میں ہو، داخلی و خارجی سلامتی، فکری استحکام اور سماجی یکجہتی کے وہی ضامن ہوتے ہیں جنہیں علماء اور مذہبی قیادت کا تعاون میسر ہو۔ اسی طرح علماء اور مدارس کی آزادی، عزت، اثر پذیری اور بقاء بھی ریاست کی سرپرستی، قانون کے تحفظ اور باہمی تعاون ہی سے قائم رہتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوسکتے، نہ ہونے چاہییں۔ علماء اگر اپنے اصولی موقف، علمی روایت اور نظریاتی استقامت کے ساتھ ریاست سے مکالمہ اور مشاورت کریں اور اصلاح کی تجاویز پیش کریں تو یہ کمزوری نہیں، بلکہ بالغ نظری، حکمت اور ذمہ داری کی علامت ہے۔ ریاست کے ساتھ بیٹھنے کو "دنیا داری" یا "گناہ" قرار دینا عصرِ حاضر کی بڑی فکری غلطی ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ علما و مشائخ کانفرنس میں مصروفیت کے باعث شرکت ممکن نہ ہوسکی، مگر کانفرنس میں علماء اور ریاستی ذمہ داران کو اہم قومی موضوعات پر یکساں طور پر متفکر دیکھ کر دل خوش ہوا۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر صاحب اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب کے جناح کنونشن سینٹر میں خطابات نے اس مثبت سوچ کو مزید تقویت دی۔ آرمی چیف نے نہ صرف اپنا نقطۂ نظر واضح کیا، بلکہ خاص طور پر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، مفتی عبدالرحیم صاحب، جامعہ اشرفیہ اور جامعۃ الرشید کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے ادارے ملک میں موجود ہوں تو پورے ملک کو "مدارستان" بنا دینا چاہیے۔
یہ جملہ مدارس کی علمی، دینی اور اخلاقی عظمت کا اعتراف ہے اور مقصد یہ ہے کہ ایسی متوازن، معتدل اور سنجیدہ دینی فکر معاشرے میں عام ہو، لیکن افسوس کہ بعض مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے اس ملاقات کو "گناہ کبیرہ" بنا کر پیش کیا۔ ان کی سخت زبان، بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر یہ کون سی دینی غیرت ہے جو دلیل کے بجائے تحقیر اور گالی پر قائم ہے؟
علماء کا ریاستی نمائندوں سے ملنا گناہ نہیں، بلکہ ذمہ داری ہے۔ مکالمے ہی سے قومی یکجہتی جنم لیتی ہے۔ یہ ملاقاتیں کوئی نئی روایت نہیں۔ ضیاء الحق سے پرویز مشرف تک اکابر علماء مسلسل ریاستی و عسکری قیادت سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ علما و مشائخ کانفرنسز اس ملک کی مستقل روایت رہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آج جن لوگوں کو اس روایت پر اعتراض ہے، وہ خود ماضی میں انہی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔
عالم دین کا مقام اس کی علمی امانت، فکری استقامت اور اخلاقی وقار سے بنتا ہے، نہ کہ کسی ملاقات یا کانفرنس میں شرکت سے۔ اگر ہمیں واقعی اس ملک کو آگے بڑھانا ہے تو علماء اور مدارس کو اپنا بھرپور، مؤثر اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کئی دہائیوں سے فکری انتشار، سماجی تقسیم، فرقہ واریت اور انتہاپسندی جیسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان بیماریوں کا حقیقی علاج صرف علماء کے پاس ہے، کیونکہ وہی محراب و منبر کے وارث اور دلوں کے معالج ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ وہ اسلام کی غلط تعبیر پیش کرتی ہیں اور نوجوان ذہنوں کو زہر آلود کرتی ہیں۔ ان کے خلاف سب سے مضبوط اور مؤثر موقف علماء ہی کا ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا علماء کی ذمہ داری بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔ علماء، ریاست، فوج، مدارس، ان میں سے کوئی بھی پاکستان مخالف نہیں ہوسکتا۔ سب اسی وطن کے محافظ اور اسی کے مستقبل کے ذمے دار ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ علماء ریاستی اداروں سے مسلسل مکالمہ کریں، غلط پالیسیوں سے اختلاف ضرور کریں، مگر اسے محاذ آرائی نہ بنائیں۔ اصلاح مشاورت سے ہوتی ہے، دشمنی سے نہیں۔ ریاست اور دینی قیادت کا ایک میز پر بیٹھنا نہ صرف خوش آئند ہے، بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ جب مکالمہ ہوگا تو غلط فہمیاں کم ہوں گی، اعتماد بڑھے گا اور قوم ایک واضح سمت کی جانب بڑھ سکے گی۔
مدارس، علماء اور مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ اس مثبت اقدام کا خیر مقدم کریں۔ پاکستان کی نظریاتی، اخلاقی اور سماجی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے ریاست اور علماء کا ساتھ چلنا ہی بہترین راستہ ہے۔ یہی دانائی ہے، یہی ذمہ داری ہے اور یہی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

