Khooni Tehwar Ka Faisla Wapis Liya Jaye
خونی تہوار کا فیصلہ واپس لیا جائے

پنجاب حکومت نے پچیس برس بعد 6، 7 اور 8 فروری کو بسنت منانے کی اجازت دے دی ہے۔ پنجاب کے وزیرِ تعلیم نے اپنے میڈیا پیج پر اس فیصلے کا اعلان نہایت خوشی کے ساتھ کیا، جبکہ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے لاہور بھر میں "ہمارے پیارے ہیریٹیج بسنت فیسٹیول" کی بحالی کی منظوری دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بسنت ایک تاریخی روایت ہے جسے دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے اور یہ کہ "بسنت آرڈیننس 2025" کے تحت ہر پتنگ اور اس کی ڈور رجسٹرڈ، QR کوڈڈ اور مانیٹر کی جائے گی۔
ان کے بقول بسنت عوام کا تہوار ہے اور اس کی کامیابی اجتماعی ذمہ داری ہے، لیکن جیسے ہی بسنت کی اجازت کی خبر گردش میں آئی، ذہن بے اختیار ان تلخ اور خونی مناظر کی طرف لوٹ گیا جن میں رنگ برنگی پتنگوں کے تعاقب میں انسانی جانیں ارزاں ہو جایا کرتی تھیں۔ گزشتہ پچیس برس کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ بسنت پر پابندی کسی "تہوار دشمنی" کے جذبے کے تحت نہیں لگائی گئی تھی، بلکہ اس کے پس منظر میں وہ لاتعداد معصوم جانیں تھیں جو قاتل ڈور کی لپیٹ میں آ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔ نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ بجھے، کتنی گودیں اجڑیں اور کتنی مانگیں اچانک بیوگی کی سفیدی اوڑھنے پر مجبور ہوئیں۔
یہ واقعات محض اعداد و شمار نہیں تھے، بلکہ ہر عدد کے پیچھے چیختی چلاتی کہانیاں، بکھرتے خواب اور اجڑتے گھر تھے۔ یہی وہ تلخ حقائق تھے جنہوں نے بسنت جیسے رنگین تہوار کو خوف، غم اور دہشت کی علامت بنا دیا۔ گزشتہ سال فیصل آباد کے ایک نوجوان کی ویڈیو نے ہر صاحبِ دل کو تڑپا کر رکھ دیا۔ موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے وہ قاتل ڈور کی زد میں آیا، خون کی لکیر اس کے سفید کپڑوں سے بہتی ہوئی زمین تک جا پہنچی۔ یہ منظر اتنا اذیت ناک تھا کہ بہت سے لوگ پوری ویڈیو دیکھ ہی نہ سکے۔ وہ کسی ماں کا اکلوتا بیٹا، کسی بہن کا سہارا اور کسی دلہن کا ہونے والا سہاگ تھا۔ چند دن بعد اس کی شادی تھی، مگر بے لگام ڈور نے لمحوں میں اس کی زندگی چھین لی۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب بسنت پر مکمل پابندی نافذ تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب پابندی کے باوجود ایسا ہو سکتا ہے تو "مشروط اجازت" کے بعد کیا کچھ نہیں ہوگا؟
حقیقت یہ ہے کہ بسنت پر پابندی سے پہلے ہر سال بیس پچیس افراد قاتل ڈور کی نذر ہو جاتے تھے اور پابندی کے باوجود بھی اس جان لیوا کھیل کے باعث اموات کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ اگر آج بسنت منانے کی دوبارہ اجازت دی جاتی ہے تو یقیناً چھتوں پر پتنگیں تو اڑتی نظر آئیں گی، مگر ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ بھی نئے المناک مناظر سے بھر جائیں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ بسنت "شرائط" کے ساتھ منائی جائے گی، پتنگوں پر QR کوڈ لگے گا، موٹر سائیکلوں پر حفاظتی انٹینا نصب ہوں گے، پتنگ فروش رجسٹرڈ ہوں گے اور نابالغ بچے پتنگ نہیں اڑا سکیں گے۔ یہ سب اقدامات کاغذ پر نہایت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں، مگر کیا یہ شہریوں کی جان کی حقیقی ضمانت بن سکتے ہیں؟ کیا محض قوانین کا اعلان ان پر عمل درآمد کے مترادف ہے؟ کیا QR کوڈ لگی پتنگیں گردنیں نہیں کاٹیں گی؟ کیا انٹینا لگوانے سے ہر جان محفوظ ہو جائے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ خطرہ صرف دھاتی ڈور تک محدود نہیں۔ عام ڈور بھی کئی بار زندگی کا دھاگا کاٹ دیتی ہے۔ ڈور قوانین نہیں پڑھتی، پتنگ عمر نہیں دیکھتی اور موت شناختی کارڈ نہیں مانگتی۔
مشرف دور میں بسنت حکومتی سرپرستی میں منائی گئی۔ موٹر سائیکلوں پر حفاظتی تاریں بھی لگوائی گئیں، مگر اس کے باوجود قاتل ڈور موت بن کر گھومتی رہی۔ چند ہی برسوں میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں اور بالآخر حکومت کو مکمل پابندی عائد کرنا پڑی۔ پولیس نے بھی کھلے الفاظ میں اعتراف کیا تھا کہ "یہ خون روکنا ممکن نہیں"۔ اس تلخ تجربے نے ثابت کر دیا تھا کہ واحد حل مکمل پابندی ہے، مگر کچھ حلقے چند برس کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر رنگین آسمان کی خواہش لے کر سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔
خوشی منانے میں کوئی قباحت نہیں، مگر وہ خوشی جو کسی کے گھر کا چراغ گل کر دے، تہوار نہیں، بلکہ اجتماعی ظلم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ بسنت ہماری ثقافت ہے یا نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا چند لمحوں کی تفریح کسی کے بیٹے، بھائی یا شوہر کے خون سے زیادہ قیمتی ہو سکتی ہے؟ انسانی جان کی حرمت ہر تہوار، ہر روایت اور ہر ثقافتی دلیل سے بالاتر ہے۔ اگر چند گھنٹوں کی رنگینی کے بدلے ایک بھی جان خطرے میں پڑتی ہے تو ایسا فیصلہ کھلی حماقت کہلائے گا۔ اگر حکومت نے جذبات کے بجائے عقل، تجربے اور ماضی کی تلخ حقیقتوں کی روشنی میں فیصلہ نہ کیا تو تاریخ ایک بار پھر یہی لکھے گی کہ ہم نے رنگوں کی چاہت میں اپنے لوگوں کا خون بہایا اور کچھ نہ سیکھا۔ موت اور نقصان کا وہ راستہ دوبارہ کھولا جا رہا ہے جو بڑی مشکل سے بند ہوا تھا اور اگر خدانخواستہ بسنت کے دوران کوئی جانی نقصان ہوا تو اس کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری بسنت کی پابندی ختم کرنے والوں پر عائد ہونی چاہیے۔

