Manto Aur Kashmir Ki Fitri Khoobsurti
منٹو اور کشمیر کی فطری خوبصورتی
بھارت کے زیر سایہ وادیِ کشمیر میں ظلم و تشدد کا سلسلہ لامتناعی ہے۔ کشمیر کی کہانی آج کی بات نہیں۔ اُردو کہانی کو نئی جہت دینے والے، اُرود اَدب میں افسانہ کے بے تاج بادشاہ، سعادت حسین منٹو جو 11مئی 1912ء کو کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، نے کشمیر کا نقشہ یوں بیان کیا ہے: منٹو نے ایسے وقت میں جب کشمیر کا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بھارت کے کنٹرول میں آ چکا تھا۔
منٹو نے، افسانہ "ٹیٹوال کا کتا" میں کشمیر اور کشمیریوں کو سامنے رکھ کر ایک "کتے کی کہانی" افسانے کی صورت میں لکھی، جو دونوں ملکوں کے درمیان سینڈوچ بن جاتا ہے۔ دونوں اطراف سے گولیاں چلتی ہیں، کبھی پاکستانی مورچوں کی جانب بھاگتا ہے اور کبھی بھارتی مورچوں کی جانب۔ پہلے ماں بہن کی گالیاں کھاتا ہے اور گولیاں لگنے سے جب مارا جاتا ہے تو ایک جانب سے افسوس کے ساتھ اسے شہید اور دوسری جانب سے کتے کی موت مرنے کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
منٹو نے کشمیر کی فطری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی مفلسی، لاچاری، معصومیت، شریف النفسی، رواداری، مہمان نوازی، بول چال، اندازِ گفتگواور احترام آدمیت کو افسانوی پیرایے میں خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ منٹو کے افسانوں کامطالعہ کرکے یہاں کی ہریالی، پھولوں اور میوؤں سے معطر ہواؤں، درازقد کے درختوں اور پرندوں کی نغمہ ریزیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ذریعہ معاش، لباس، رسم ورواج اور انداز فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
غرض منٹو کے افسانوں میں کشمیری تہذیب بالخصوص کشمیری پہاڑی تہذیب کا کافی سرمایہ سما گیا ہے۔ کشمیری تہذیب و ثقافت کی عکاسی میں اُن کے جو افسانے خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اُن میں شغل، ٹیڑھی لکیر، موسم کی شرارت، بھیگو، نامکمل تحریر، مصری کی ڈلی، لالٹین، شیرو، پانچ دن، مزدوری، شانتی، آخری سلوٹ، ٹیٹوال کا کتا وغیرہ ہیں۔
بھیگو ایک معصوم پہاڑی لڑکی کی کہانی ہے جو لوگوں کی چاپلوسی اور مکروفریب کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کہانی کا واحد متکلم جو بھیگو کا عاشق ہوتا ہے لوگوں کی چاپلوسی اور مکروفریب کا شکار ہوتا ہے اور بھیگوکی پاک دامنی پر شک کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھیگو سے جدا ہو جاتا ہے۔ بھیگو اپنی پاک دامنی کو اپنے بھولے پن اور معصومیت کی وجہ سے ثابت نہیں کرپاتی جس کی وجہ سے وہ اپنی محبت کو بچانہیں پاتی ہے نیز اپنے عاشق کے نظروں میں عصمت باختہ ثابت ہو جاتی ہے۔ بالآخر وہ عصمت فروشی پر مجبور ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ دق کی مریض بن جاتی ہے اور ایام جوانی میں ہی موت کا شکار ہو جاتی ہے۔
منٹو نے بھیگو، کے کردار سے کشمیری پہاڑی لڑکیوں کے بھولے پن، معصومیت، پاکیزگی کی دلکش عکاسی کی ہے: "بھیگو!میں تمھارے چال و چلن کی سب کہانی سن چکا ہوں اور تمھارے سارے حالات سے باخبر ہوں، کتنی بھولی بنتی ہو جیسے کچھ جانتی ہی نہیں ہو"۔۔ "مجھے یاد ہے، آپ نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھا کہ پانی بھرنے نہ آیا کروں، بھینس نہ چرایا کروں۔ شاید آپ اسی وجہ سے ناراض ہو رہے ہیں"۔۔ میں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی میری نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور گال آنسوؤں کی وجہ میلے ہو رہے تھے۔۔ بھیگو نے میرے جانے کے بعد اپنے شباب کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا اور دق کے مریضوں سے ملنے کی وجہ سے وہ خود اس کا شکار ہوگئی۔۔ اس مرض نے بالآخر اُسے قبر میں سلا دیا۔ "
افسانہ شغل، بھی کشمیریوں کی لاچاری، بے بسی اور مفلسی کی عکاسی میں قابل ذکر ہے۔ یہ کشمیری پہاڑی مزدوروں کی کہانی ہے جو حکمرانوں کے ظلم و ستم کے آگے بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں۔ اُن کی نظروں کے سامنے لڑکیوں کی عصمت کا سودا ہو جاتا ہے مگر وہ کچھ کر نہیں پاتے ہیں کیوں کہ معاشی طور پر ان کا اس قدر استحصال کیا گیا ہے کہ مشکل سے دو وقت کی روٹی مل پاتی ہے اور حکمرانوں کے زور و جبرکے آگے چپ سادھ لینے کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ افسانے شغل، سے اقتباس۔
فطرت جس طرح کشمیر کے کھانے پینے، بول چال، کھیتی باڑی کے طور طریقوں کے پس منظر میں کام کرتی ہے اسی طرح یہاں کے لباس میں بھی اس کا بڑا دخل رہا ہے۔ سردی کے موسم میں لوگ اون کے گرم کپڑے پہنتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں ریشم کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ عام طور پر لوگ رنگین کپڑے پسند کرتے ہیں جس کے پس منظر میں فطرت کا عمل دخل ہے۔ عورتوں کے لباس میں اس کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔ عورتوں کے لباس رنگین پھولوں، ہریالی، خوشنما بیل بوٹوں سے سجے ہوتے ہیں۔ ان کے لباس کو دیکھ کر فطرت کے عمل دخل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
منٹو نے اس کی بہترین عکاسی کی ہے: "سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک قد دراز بوٹا معلوم ہو رہی تھی۔ ""وہ گہرے سبز رنگ کا دوپٹا اوڑھے ہوئے تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آس پاس کی ہریاول نے اپنی سبزی اُسی سے مستعار لی ہے۔ اُس کی شلوار بھی اُسی رنگ کی تھی۔ اگر کرتہ بھی اُسی رنگ کا پہنے ہوتی تو دور سے دیکھنے والے یہی سمجھتے کہ سڑک کے درمیان ایک چھوٹا سا درخت اُگ رہا ہے"۔
کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں جواں لڑکیاں عام طور پر بھینس، بکری، بھیڑ اور گائے پالنا، لکڑی توڑنا اور دودھ گھر گھر لے جانا، کپڑے دھونااور جنگلی سبزی چننے کا کام کرتیں ہیں۔ پہاڑی لوگ ان بھینس، بکریوں سے کافی دلچسپی رکھتے ہیں اور یہی کام اُن کے روزگار میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ منٹو نے یہاں کے لوگوں کے ذریعے معاش بالخصوص عورتوں اور جواں سال لڑکیوں کے معاش کی بہترین عکاسی کی ہے: "کشمیر میں موسم سرما میں شدت کی سردی ہوتی ہے اور برف باری کی وجہ سے اس سردی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے کشمیر میں مکانات بھی ایک خاص طرز سے تعمیر ہوتے ہیں۔ مکان عام طور پر انیٹوں، پتھروں اور لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں کچھ مکان خالص لکڑی کے بنے ہوتے ہیں اورکچھ کچی مٹی کے ہوتے ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں۔ ان کمروں میں کھڑکیاں بہت کم ہوتی ہیں اور فرش اور دیوار، گاڑھے مٹی سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔
منٹو اس کا ذکر افسانے شیرو، میں ان الفاظ میں کرتے ہیں: "دیہاتوں میں روپے کا منہ دیکھنا بہت کم نصیب ہوتا ہے اس لیے ہم سب خوشی خوشی چھ آنے روزانہ پر سارا دن پتھر ہٹاتے رہتے ہیں۔۔ پتھروں کو سڑک پر سے ہٹانا تو خیر معمولی بات تھی، ہم تو اس اجرت پر ان پہاڑوں کو بھی ڈھانے پر تیار تھے۔۔ ہم سب کے پائجامے یا تو گھٹنوں پر سے گھس گھس کر اتنے باریک ہو گئے تھے کہ ان میں سے جسم کے بالوں کی پوری نمائش ہوتی تھی یا بالکل پھٹے ہوئے تھے"۔
کشمیر واقعی دنیا میں جنت ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔