Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Hashmi/
  4. Corona, Mayoosi, Ehtiyat

Corona, Mayoosi, Ehtiyat

کورونا، مایوسی، احتیاط

جب کوئی بیماری یا وبا لاحق ہوجاتی ہے تو اس کے اثرات برسوں رہتے ہیں۔ ہمارےاذہان معمولات سے ہٹ چکے ہوتے ہیں اور ہم سائکو پیشنٹ بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کورونا کے ساتھ ساتھ ہمیں مایوسی اور خوف سے بھی بچنا ہے۔ میڈیا اور سیاستدانوں نیز دانشوروں، علماء کرام اور دیگر صاحب الرائے افراد کو یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہر طرف مایوسی ہے، خوف ہے، کورونا سے ہلاکتوں کا خدشہ ہے، مگر یہ دنیا کا اختتام تو نہیں ہے۔ ایک چیلنج ہے، ایک آزمائش ہے، اس سے نکلنا ہے، اپنے حوصلوں اور ہمتوں کو جوان رکھ کر ہمیں احتیاط کرنی ہے۔ تاہم کورونا کو اس طرح اپنے حواس پر طاری نہیں کرنا کہ ہمارے اعصاب ہی جواب دے جائیں، ہم زندہ لاشوں کی شکل اختیار کر لیں۔ یہ کوئی پہلی آفت تو نہیں کہ جو عالم انسانی پر آئی ہے، اس سے پہلے نجانے کتنی بڑی اور تباہ کن آفات کا انسانوں کو سامنا رہا ہے، مگر آفات ختم ہو گئیں انسان جیت گیا۔ اس کورونا وائرس کو بھی ہم شکست دیں گے، ایک بار پھر اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹیں گے۔ اس بات کا ہمیں یقین ہونا چاہئے اور اس امید کو ہر صورت زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کورونا سے ذیادہ مریض سائیکی ہیں، جن کے اعصاب پر خوف، مایوسی طاری ہے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارے اندر پہلے سے زیادہ حوصلہ پیدا ہونا چاہئے۔ پاکستانی قوم نے تو بڑے بڑے سانحات دیکھے ہیں، زلزلے، دہشت گردی، ہیپاٹائٹس، ڈینگی وائرس اور نجانے کیا کیا، لیکن ہر مشکل سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں۔ اس قوم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب دہشت گردی کے خوف سے مساجد میں نماز پڑھنا مشکل ہو گیا تھا، جب سر شام لوگ گھروں میں دبک جاتے تھے، کراچی جہاں روزانہ درجنوں لاشیں گرتی تھیں، لاشوں کا شہر شام ہوتے ہی اندھیروں اور ویرانی میں ڈوب جاتا تھا۔ اب وہی کراچی جگمگا رہا ہے، وہی خوف میں ڈوبا ہوا پاکستان دہشت گردی سے نجات حاصل کر چکا ہے۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ فرقہ واریت کی خون آشامی نے ہمیں کس طرح اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ ہر شہر ہر جگہ خون کے دریا کا منظر پیش کرتی تھی، کون کہہ سکتا تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن سب نے دیکھا کہ یہ سلسلہ نہ صرف ختم ہوا بلکہ اس کی جگہ بھائی چارے نے لے لی۔

اگرہم نےاحتیاط یونہی برتی تو یقیناّ ہم کورونا وائرس کو بھی اسی طرح شکست دیں گے ان شاء اللہ۔ خوفزدہ ہونے یا مایوس اور بد دل ہو کر اپنا مورال ڈاؤن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ بلائے نا گہانی دنیا بھر میں آئی ہے، سب اس کا مقابلہ کر رہے ہیں سب سے بڑھ کرہمارے پاس تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے قوت ایمانی بھی موجود ہے۔ آج امریکی صدر کی موجودگی میں تلاوت کلام پاک کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ تاہم ہمارے تو گھروں میں صبح و شام قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ سب کچھ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ کورونا وائرس بھی اس کے حکم سے آیا ہے اور اسی کے حکم سے واپس جائے گا۔ آج یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر اذانیں دی جا رہی ہیں وہ خطے جہاں اسلام کا مذاق اڑایا جاتا تھا، انتہا پسندی کا مذہب قرار دیتے تھے، وہیں ایک آفت سے پناہ کے لئے اللہ کو یاد کیا جا رہا ہے۔ یہ اسلام کی فتح ہو رہی ہے اور ہم بطور مسلمان اس پر فخر کر سکتے ہیں جہاں ہمیں فخر کرنا چاہئے وہیں اپنے خدا پر بھروسہ بھی رکھنا چاہئے کہ وہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔ ہمیں اس ناگہانی آزمائش سے بچا لے گا۔ خدا کو تو ہم بھی بھول گئے تھے، ہم نے بھی دنیا داری میں پڑ کر اپنے رب کے احکامات کو بھلا دیا تھا۔ ہر وہ برائی اپنالی تھی، جس سے منع کیا گیا تھا۔ یہ ہماری اصلاح کا وقت بھی ہے، خود احتسابی سے کام لینے کی گھڑی بھی ہے۔ ہم دیکھیں اور سوچیں کہ کہاں کہاں ہم سے کوتاہی اور اپنے رب کی حکم عدولی ہوئی۔ اس حکم عدولی کے نتیجے میں ہم اس پکڑ کا شکار ہوئے۔

ہم اسلام کو بطور مذہب سمجھ کر محدود کرچکے ہیں۔ اسلام بطور دین ہمارے پاس موجود نہیں نہ ہی کبھی دیکھا ہے۔ مگر مایوس ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ ہم اس نبیؐ کے امتی ہیں جو رحمتِ عالم ہے۔ جس کا وجود وجہ تخلیق کائنات ہے، جس کی رحمت اور عنایات امت مسلمہ پر ہر لمحہ جاری و ساری ہیں۔ وہ ہمیں سرخرو کرے گا، بس ہمیں کرنا یہ ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی معافی مانگیں۔ اپنے اعمال کو ان فرمودات کے مطابق ڈھالیں، جو حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمائے ہیں میں آج بھی جب دیکھتا ہوں کہ کچھ ناہنجار، بھٹکے ہوئے اور خوف خدا سے عاری اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں تو خوف سے کانپ جاتا ہوں کہ ان لوگوں کی وجہ سے کہیں عذاب کا دائرہ وسیع ہی نہ ہو جائے۔ ایک طرف لوگ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف یہ ذخیرہ اندوز، بلیک مافیا کے پیرو کار اور ناجائز منافع خور اس دوڑ میں مگن ہیں کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکھٹا کر لیں۔ انہیں مرنے کا ڈر ہے اور نہ آخرت کی فکر ہے پوری قوم کرونا وائرس سے ڈری ہوئی ہے مگر یہ سنگدل اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک بڑے عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ پانچ روپے کے ماسک کو دوسو روپے میں بیچنے والے ہی سب سے زیادہ اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ مساجد میں پانچ وقت با جماعت نماز جاری رہنی چاہئے، ایسی نمازوں کا کیا فائدہ جو خلقِ خدا کو اذیت دینے کے بعد ادا کی جائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کرونا کے خوف میں مبتلا پاکستانیوں کو اس خوف میں بھی مبتلا کر رہے ہیں کہ شاید آنے والے دنوں میں کھانے پینے کا سامان بھی نہیں ملے گا اور وہ بھوکوں مر جائیں گے۔ ایسے لوگوں کا علاج حکومت کو قانون کا ڈنڈا چلا کے کرنا چاہئے، تاہم خود انہیں بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی دولت کس کام کی جو مجبوروں پر ستم ڈھا کے کمائی جائے۔

خوف وحراس کا یہ عالم ہیکہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا ہم واپس نارمل زندگی کی طرف جا سکیں گے، ہاں جا سکیں گے مگر ان فارغ دنوں میں گھر بیٹھ کے یہ ضرور سوچیں کہ کیا اپنی نارمل زندگی میں جانا چاہتے ہیں جو حد درجہ برائیوں، گناہوں اور کوتاہیوں میں لتھڑی گئی تھی۔ کیا سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے گھر بیٹھ کے ایک لمحے کے لئے سوچیں گے کہ وہ خلقِ خدا کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اسے کس طرح طاقت اور اختیار کے نشے میں مبتلا ہو کے اذیتیں دیتے تھے۔ مجبوروں سے رشوت مانگتے اور مظلوموں کو انصاف دینے کی بجائے ان پر ظلم ڈھاتے تھے۔ اپنے ایک ایک لمحے کی قیمت وصول کرتے اور شام کو جیبیں بھر کے گھر جاتے۔ آج ان کے اختیارات سلب کر لئے گئے ہیں۔ انہیں بے اختیار کر کے گھر بٹھا دیا گیا ہے۔ بظاہر سب کے پاس عہدے موجود ہیں لیکن حقیقتاً بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں کیا وہ اس دور ابتلاء سے کچھ سبق سیکھیں گے، کیا اپنے رب سے معافی مانگیں گے، کیا یہ عہد کریں گے کہ آئندہ رشوت نہیں لیں گے، خلقِ خدا کو تنگ نہیں کریں گے اور اپنے فرائض ایمانداری و لگن سے سر انجام دیں گے۔ پوری دنیا نارمل زندگی کی طرف جلد ہی لوٹے گی، مگر دنیا اب وہ نہیں ہو گی جو کرونا وائرس آنے سے پہلے تھی۔ اب اس میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہوں گی۔ خود ہمارے رویئے بھی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ ہم جو اپنے خاندانوں سے کٹ گئے تھے، اب یہ جان چکے ہیں کہ انسان کی آخری امید اس کا خاندان ہی ہوتا ہے۔ کرونا وائرس نے دنیا کو بھی تبدیل کر دیا ہے، اب یہ صحیح معنوں میں گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ دنیا کے دکھ سکھ سانجھے ہیں کسی ایک ملک میں جنم لینے والا وائرس پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی مایوسی اور خوف سے بچنا ہے۔ وقتی طور پر خود کو گھروں میں بند کرنا ہے مگر امید اور اچھے دنوں کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند نہیں کرنی کیونکہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور ہم قوت ایمانی سے ہر بیماری کو شکست دیکر اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کوامیدیں دیکر نئی شروعات کرسکتے ہیں۔ بظاہر مشکل، لیکن ہم پہلے سے مضبوط قوم بن کر ابھریں گے ان شاء اللہ۔

Check Also

Nat House Mein Jashn Aur Abid Raza Kotla Ki Khamoshi

By Gul Bakhshalvi