Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Aalmi Waba Aur Hamare Ghamkhwar Kaise Kaise

Aalmi Waba Aur Hamare Ghamkhwar Kaise Kaise

عالمی وباء اور ہیں ہمارے غمخوار کیسے کیسے

ابتلاء کا دور ہے، ملک بھر میں مہلک وائرس (کووڈ - 19) سے متاثرہ افراد کی تعداداور اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بات کورونا وائرس اور اس کے اثرات پر ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ ایسی وبائیں بھی پھوٹ پڑی ہیں جن کا تعلق کسی وائرس سے نہیں بلکہ براہ راست انسانوں سے ہے جو وہ بغیر کسی وائرس کے سہارے کے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کو اس وقت صرف کورونا وائرس کی عالمی وباء کا سامنا ہی نہیں بلکہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا اور جہالت کی مہلک وبائیں بھی پھوٹ پڑی ہیں۔ ہماری عدم توجہی کے باعث ان کے پھیلاؤ کی رفتار وائرس کی رفتار سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔ جاہل اور غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے پھیلایا جانے والا جھوٹ اور دیگر خرافات انسانیت کے لئے مزید نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ ان خرافات کا سب سے بڑا نقصان وائرس سے متعلق روزانہ سامنے آنے والی نئی تحقیق، احتیاطی تدابیر اور دیگر مفید معلومات کا بوجھ اٹھائے سچ کی کشتی عوام تک پہنچنے سے قبل ہی خرافات کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ کورونا سازش ہے یا حقیقت، قوم ان کے ہاتھوں ابہام کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہے۔

کورونا وائرس ہو یا کوئی بھی عالمی وباء بے احتیاطی، ٹوٹکے مرض کو انسان کے لیے مزید گھمبیر کرتے ہیں۔ آج کل کورونا معاملے میں بھی ہمارے غمخوار بڑی فیاضی سے سہولت کار بنے ہیں، اور وہ ہے اندھا دھند مشورے دینے والے خود ساختہ معالجوں کی انتھک خدمات! بلکہ درحقیقت ہم اسی واحد معاملے میں خود کفیل ہیں۔ کیونکہ ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں جہاں نسب میں شرافت ڈھونڈھنے اور ہر معاملے میں بنا مانگے مشورے دینے کا عمل مشترکہ مشغلہ سا ہے۔ لیکن ایک حوالے سے ہم باقی اقوام کی نسبت کسی قدر خاص بھی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ہر گلی کوچے میں ایسے اتائیت بھی ہیں کہ جنکے طبی مشوروں کے لیے پہلے بیمار پڑنے کی شرط اور جھنجھٹ بھی ضروری نہیں ہوتا اور مزید خاص بات یہ بھی ہے کہ انکے ان طبی مشورے کو لینے والا چند روز بعد ہی اس نسخے کو استعمال کرنے کے قابل بھی ہوجایا کرتا ہے۔ ویسے خود کئی امراض کا شکار ہونے کے باوجود وہ ہمہ وقت طبی مشاورت کے ذریعے بہبود عامہ کے لیے نہایت بیقرار رہتے ہیں اور منفرد صفت یہ کہ جوکوئی یونہی انکے آس پاس ذرا دیر کو بھی آ بیٹھے تو وہ ایک دو ان امراض کے علاج کے نسخے لیئے بغیر نہیں اٹھ پاتا کے جنکے آثار وہ اس میں باآسانی و بغیر بتائے بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں۔

اب کورونا کی عالمی وباء جو لاکھوں انسانی جانیں نگل گئی، ہمارے سادہ لوح، خصوصا ً دیہی علاقوں میں ایسے غم خوارجو علامتیں کچھ اس دلسوز و ہیبتناک طور سے بتاتے ہیں کہ خشوع و خضوع سے سننے والا آناً فاناً خود میں یہ سارے امراض موجود پانے لگتا ہے اور انکے نسخوں کے حصول کے لیئے مچل مچل اٹھتا ہے-

کورونا جس کی ویکسین کے لیے پوری دُنیا کی ٹیکنالوجی، سائنس، ڈاکٹرزتحقیق میں لگے ہیں، لیکن کمال دیکھیں کہ ان غمخواروں کو اس قدر بھانت بھانت بیماری کے علاج کے بیشمار نسخے کہاں سے ملتے ہیں، یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ وہ صرف عموماً نہیں بلکہ خصوصاً مطالعے سے یکسر پرہیز کرتے ہیں بلکہ شاید مطالعے کو بھی وہ صفت اور تاثیر کے لحاظ سے بادی اور ثقیل باور کرتے ہیں۔ سادہ لوح یہ تصور کرتے ہیں کہ طبی علم و حکمت کی خصوصی معلومات و مہارت پانے کے لیئے وہاں صرف پیدا ہونا ہی کافی ہوتا ہوگا، گویا انکی طبی و غیر طبی معلومات کا ماخذ نسل در نسل منتقل ہوتا سینہ گزٹ ہی ہے۔

معمولات زیست میں یہ نیم حکیم، خطرہ جان تو ہوتے ہی ہیں، جن بیشتر نسخے لینے والے تہ خاک چھپ بھی جاتے ہیں اور پھر بھی یہ سلسلہ کبھی بھی تھمتا نہیں۔ بلکہ ان سے نسخہ لینے والے کبھی کسی دوسرے مرض سے مرتے نہیں دیکھے گئے۔ تاہم انکے اخلاص پہ شبہ کرنے کی گنجائش بھی کبھی نہیں نکل سکی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نسخوں پہ منحصر کئی مریضوں کی تجہیز و تکفین میں بھی اسی انہماک سے شرکت کی کہ جس والہانہ پن سے انہیں نسخہ جات کی تابڑ توڑ رسد فراہم کرتے ہیں۔ ان ایام ِ کورونا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جن پر تنقیدی اظہار ِ خیال کے بعد انتقامی و التزامی انداز میں تادیر انکے سینہ گزٹ نسخہ جات ابل ابل کے انکے منہ سے نکلتے اور سادہ لوح افراد کے کانوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے کئی کے تونام ہی ابکائی آور سے معلوم ہوتے ہیں اور جنکے ذکر ہی سے میں کچھ دیر کے لیئے وہ خود کو بیمار بیمار سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نسخہ جات سے بساء اوقات مریض کو درد وغیرہ کا آرام محسوس ہی نہیں بلکہ بشاشت اور راحت کا ہرامکان کافور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔

ایسے حالات میں اگر ان کے مداحوں سے کہا بھی جائے کہ کورونا خطرناک ہے اور ایسے غیر سنجیدہ ٹوٹکوں سے جان لیوا بھی ہو سکتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ انکی انتہائی کاوشوں کے باوجود کچھ ہنوزایک کندہء ناتراش ہیں اور ہر طرح کی حکمت خصوصاً طب سے مکمل نابلد ہیں، بلکہ ان طبی امور سے بے پایاں و خصوصی بغض رکھتے ہیں۔ اور اپنی اس ذاتی بے مثل غفلت و شدید حماقت کے باعث عالم انسانیت کی رضاکارانہ خدمت پہ مامور ان جیسے گشتی شفاخانے سے مستفید ہونے کی سعادت سے خود بھی محروم رکھتے ہیں، اپنے ممکنہ لواحقین کو بھی اس نعمت سے دور رکھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ اور ایسے افراد کا یہ فعل شنیع کسی بڑے گناہ کے درجے میں شمار کیئے جانے لائق ضرور ہے اور یقینا یہ عمل ان کی بخشش کے آڑے بھی آسکتا ہے۔

ان کے نسخہ جات سن کر ہی ایک پڑھ لکھا شخص ششدر رہ جاتا ہے(جیسے ان ایام میں گرم پانی پی لیں، گرمی میں کورونا ختم وغیرہ) ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے انکی تالیف قلب اور رفع خفت کے لیئے خاموشی بہتر قرار دی جاتی ہے۔ ہماری یہ بے احتیاطی، غفلت کہیں ملک، ڈاکٹرزکی مشکلات کا سبب نہ بن جائے۔ حتی الامکان احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں، اور محض ایسے اتائیوں کی دلبستگی کے لیئے ان کے نسخوں کا سہارا لیتے نہ لیں۔ کورونا کی فرنٹ لائن لڑنے والوں کا ساتھ دیں، ان کی ہدایات پر عمل کریں، ان کے حوصلے بلند کریں، انہیں پوری قوم کا سلام۔

عالمی ادارے کی ہدایات سے واضح ہے کہ ان خرافات پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے اور آگے پھیلانے کی بجائے ہمیں سماجی دوری، حکومتی ایس او پیز پر عمل پیرا ہو کر معمولات ِ زندگی چلانا ہوں گے۔ حفظان صحت کی عادات پر سختی سے کار بند ہونا پڑے گا کیونکہ آنے والے وقت میں انسانیت کی بقاء انہی احتیاطی تدابیر سے مشروط ہو گی۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad