Hum Badlenge To Badle Ga Pakistan
ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان
آزاد ملک میں پیدا ہونے والوں کو کیا خبر کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور اس کی قیمت کیا۔ قیمت تو جانیں، جانیں اور قربانیاں دینے والے۔ لاکھوں کا خون اور ہزاروں کی عصمتیں اس کی بنیادوں میں شامل۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی لا الہ کے نظام کے قیام کے لیے کہ جہاں امن، سلامتی، مساوات، عدل، انصاف اور ترقی کے یکساں مواقع کہ دیار کفر میں بھی نماز کی پابندی ہے نہ روزوں کی۔ مگر یہ خطہ تو اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا مگر اسے ناانصافی ظلم اور کرپشن کی اماجگاہ بنا دیا گیا۔
اہداف بدل گئے انفرادی بھی اجتماعی بھی۔ کبھی سوچا! کہ دعائیں مقبول ہونا کیوں بند ہوگئیں کہ دعا اتحاد کی کرتے ہیں مگر عملاََ نفاق بڑھتا ہے۔ آرزوئیں امت کے عروج کی مگر ہیں روبہ زوال کہ احکام الہٰی سے منہ موڑا اور شہدائے پاکستان کے مقدس خون سے بے وفائی ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک عوام کا استحصال تو ہوتا ہی رہا مگر اس کو ہضم کرنا اور بھی مشکل کہ قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان سے عملی انحراف بھی کب جاری ہے۔
کتنی تلخ حقیقت ہے کہ وزیراعظم ہوں یا صدر معزز اداروں کے سربراہان ہوں یا مقننہ کے افسران حتٰی کہ عام شہری کسی میں جھوٹ کو جائز قرار دینے کی جرات ہے نہ جواز، مگر معاشرے میں جھوٹ کا راج، کرپشن، حرام خوری و حرام کاری کو ہر کوئی گناہ جانتا ہے مگر کوئی ایسا ادارہ بتائیے جو اس سے پاک ہو۔ حتٰی کہ روحانی باپ کا درجہ رکھنے والوں نے تعلیمی اداروں کو۔ کہ کوئی صاحب ضمیر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، بازار ہوں یا گھر میڈیا، ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے فحاشی کا فروغ ہے۔ منفرد موضوغ پر تلخ حقائق پر بات کی نوبت اس لیے آئی کہ اگست کے مہینے میں اسلاف سے تجدید عہد رسم کے طور پر رہ گئی۔
اس موقع پر قائد کے فرمودات کے حوالے دیئے جاتے ہیں اور اقبال کے فکر کی بات ہوتی ہے مگر سیاست دان ہوں یا قومی اداروں کے سربراہان، کرتے اس سے الٹ۔ قیام پاکستان کے مقاصد اور قائد کے فرامین کی عملاََ نظام سیاست و حکومت میں جو درگت بن رہی ہے اس کے مظاہر آئے روز نظر آتے ہیں۔ ریاست عوام سے اور عوام ریاست سے مگر دونوں کی حالت قابل رحم۔ عوام بدحال ہو تو ماں جیسی ریاست کیسے خوشحال ہو سکتی ہے۔ رہی سہی کسر مغرب سے مستعار جمہوری نظام نے پوری کر دی۔ باوجود اس کے کہ اقبال متنبہ کر گئے تھے کہ
"تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام، چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر۔ " جلسے جلوسوں تحریروں تقریروں میں چنگیز خان کو وحشی اور ظالم کہا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں چنگیز جابجا بےبسوں پر مشق ستم ڈھاتے نظر آتے ہیں۔
سماجی انصاف کی فراہمی کا وعدہ جس آئین میں کیا گیا تھا وہ کہاں کھو گیا؟
قیام پاکستان کے وقت اسلامی اقدار کے نفاذ کے وعدے کہاں گئے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قوانین کیوں؟
انصاف کے دروازے مظلوم پر کیوں نہیں کھولے جاتے اور زنجیر عدل کیوں ہلائی نہیں جاتی؟
اس مملکت خداداد میں قاتلوں، بدعنوانوں، چوروں، بدمعاشوں اور حرام خوروں کو کھلی چھٹی اور قانون طاقتور کو شکنجہ میں لانے میں بے بس کیوں؟
اداروں میں کرپشن کا راج اور میرٹ کی پامالی کیوں؟
حیا کی چادر تار تار کرنے والوں کا نشان عبرت کیوں نہیں بنایا جاتا؟
کہیں ناانصافی نے سونا اگلتی زمینوں کو بانجھ تو نہیں کر دیا اور بے حیائی کی نحوست کہ ماؤں نے ابن سینا، ابن رشد، ابن الہیثم، غزالی و فارابی جننا چھوڑ دئیے؟
اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں آج تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام وضح کیا جا سکا اور نہ جسمانی غلامی سے آزادی کے بعد ذہنی و فکری غلامی سے نجات کی تدبیر۔ ہم ماضی کی شاندار روایات کو بھلا کر اغیار کے نقش قدم پر چل پڑے، طرز حکومت، معیشت اور نظام تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں ناکام رہے۔ ایک ہی ملک میں طبقاتی نظام تعلیم نے جو نظریاتی خلیج پیدا کر دی اس کا پاٹنا مشکل۔
اے قائد آپ کے پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والوں کو مظلوم کی فریاد سنائی دیتی ہے اور نہ حکمرانوں کو غریب کی آہ و بکا۔ مظلوم کے لیے انصاف کے دروازے کل بھی بند تھے اور آج بھی۔ ترقی کے راستے میں سرمایہ دارانہ و جاگیردار دارانہ سوچ حائل، اے قائد آپ کے وطن کا نوجوان اپنا مستقبل مغرب میں سجائے بیٹھا ہے کہ حکمرانوں نے اس سر زمین پر اس کے خوابوں کی تعبیر ناممکن بنا دی ہے۔ اے قائد آپ کے ملک کا مزدور دو وقت کی روٹی و چراغ اور قوم کی بیٹی آبرو کو ترستی ہے۔ سر زمین آئین بے آئین ہو چکی۔
اس ماہ اگست میں ہمیں اپنی کوتاہیوں سے تائب اور اسلامی جمہوری نظام کہ جسے قرارداد مقاصد میں طے کر دیا گیا کہ نفاذ کی جدوجہد کا عہد کرنا ہوگا۔ آئیں اپنے عمل سے اپنے اقدامات سے آئین کو مفلوج بنانے کی بجائے اس کو مضبوط و توانا کریں۔ نفرتوں، اناؤں اور ہوس کے بتوں کو توڑ کر اس خواب کی تعبیر کو ممکن بنائیں جو قیام پاکستان کے وقت ہمارے اجداد نے دیکھا تھا۔ جس کے لیے ہزاروں کی عصمتیں لٹیں، لاکھوں کے خون بہے اور کروڑوں نے ہجرت کی۔
ماضی کی غلطیوں کو پیٹنے کی بجائے حال کو درست کریں تا کہ مستقبل تابناک ہو۔ جامعہ مسجد ملک ریاض کے خطیب اعلیٰ مفتی حبیب الرحمٰن نے خطبہ جمعہ میں نہ صرف وطننیت اور اتحاد و یگانگت پر درس دیا بلکہ نماز سے قبل ہزاروں نمازیوں کے ساتھ قومی ترانہ پڑھ کر منفرد روایت قائم کی۔ مگر یہ طے ہے کہ فرسودہ اور ظالمانہ نطام بدلنے سے قبل ہم نے خود کو بدلنا ہے۔ ہم بدلیں گے تو معاشرہ بدلے گا اور پھر انشا اللہ پاکستان۔