Terrorist State
ٹررسٹ سٹیٹ
گاؤں میں تین بڑے جاگیردار تھے تینوں کی آپس میں بہت بنتی تھی وہ ہر معاملے میں ایک ساتھ رہتے تھے اسی گاؤں میں باقی چند متوسط گھرانے تھے جاگیر داروں کا جب جی چاہتا یہ ان متوسط طبقے کے لوگوں پر ظلم و ستم کرتے اور خوش ہوتے، غریب گھروں کے لوگ ہر بار بدلہ لینے کا سوچتے لیکن پھر ان جاگیرداروں کے سامنے چپ ہو جاتے ایک بار انہوں نے ظلم کیا تو متوسط گھروں کے لوگ ایک ساتھ نکلے اور جاگیرداروں پر دھاوا بول دیا وہ اس بات کے لیے تیار نہ تھے اور ان کو شکست ہو گئی بس پھر اس کے بعد کبھی کسی نے کسی پر ظلم نہ کیا بلکہ جاگیر دار جب بھی انکے گھروں کے سامنے سے گزرتے تو سر جھکا کر گزرتے۔
یہ محض ایک عام چھوٹی سی کہانی ہے لیکن اس میں ایک بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے اور وہ سبق ایک ہے جب ہم ایک ہوجاتے ہیں تو برکت پیدا ہوتی ہے اور پھر اللہ بھی ساتھ دیتا ہے، آج آپ دنیا میں دیکھ لیں مغربی ممالک کا جب دل کرتا ہے اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کردیتا ہے ہمیں غم زدہ ہوتے ہیں اور غصہ آتا ہے لیکن تمام مسلم ممالک ایک نہیں ہوتے اس لیے ہم آج بھی مار کھا رہے ہیں۔
اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے فلسطین پر قبضہ کیا ہوا ہے مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی انتہا کرتے ہیں لیکن تمام امت مسلمہ خاموش ہے کوئی بات نہیں کی جاتی اور اگر کوئی ایک دو ملک اس پر بات کرتے ہیں تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، بیت المقدس دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی۔ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا سب سے مقدس کلیسا واقع ہے۔ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام نے معراج پر جانے سے قبل اسی شہر میں واقع مسجدِ اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار برس تک اس شہر پر قبضے کے لیے آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں۔
حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو نبی ﷺ فرمانے لگے: مسجد اقصیٰ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366،۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا،
بیت المقدس کی تاریخ تو بہت پرانی ہے جس کے بارے میں چند چیدہ چیدہ نکات بیان کیے دیتا ہوں۔
1000 قبل مسیح: پیغمبر حضرت داؤد نے شہر فتح کر کے اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا، 960 قبل مسیح: حضرت داؤد کے بیٹے پیغمبر حضرت سلیمان نے یروشلم میں معبد تعمیر کروایا جسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے، 589 قبل مسیح: بخت نصر نے شہر کو تاراج کر کے یہودیوں کو ملک بدر کر دیا، 539 قبل مسیح: ہخامنشی حکمران سائرس اعظم نے یروشلم پر قبضہ کر کے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دی۔
30 عیسوی: رومی سپاہیوں نے یسوع مسیح کو مصلوب کیا، 638: مسلمانوں نے شہر پر قبضہ کر لیا، 691: اموی حکمران عبدالملک نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک) تعمیر کروایا، 1099: مسیحی صلیبیوں نے شہر پر قبضہ کر لیا، 1187: صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا، 1229: فریڈرک دوم نے بغیر لڑے یروشلم حاصل کر لیا، 1244: دوبارہ مسلمانوں کا قبضہ، 1517: سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا،917: انگریزی جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دے کر شہر میں داخل ہو گیا، 1947: اقوامِ متحدہ نے شہر کو فلسطینی اور یہودی حصوں میں تقسیم کر دیا، 1948: اسرائیل کا اعلانِ آزادی، شہر اسرائیل اور اردن میں تقسیم ہو گیا، 1967: عرب جنگ کے نتیجے میں دونوں حصوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔
خلیفہ دوم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیت المقدس کی چابی لینے کیلیے ارض فلسطین کے سفر پر روانہ ہوئے تو اپنے غلام کے ساتھ تھے، دو مسافر!ایک اونٹنی کبھی آپ اس اونٹنی پر بیٹھتے تو غلام پیدل نکیل پکڑ کر چلتا اور کبھی غلام بیٹھتا تو آپ نکیل پکڑ کر چلتے۔ 14 پیوند میں ملبوس ہوکر میں اس حال میں ارض فلسطین پہنچے کہ غلام اونٹنی پر سوار تھا اور آپ نکیل پکڑ کر چل رہے تھے، کیونکہ اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام ہی کی تھی، غلام نے بہت اصرار بھی کیا کہ آپ سوار ہوجائیں لیکن آپ نے معاہدے کی رو سے غلام کو ہی سوار کیا اور تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا کہ غلام سواری پر سوار ہے اور خلیفۃ المسلمین اونٹنی کی نکیل پکڑ کر پیدل چل رہا ہے۔ پادریوں کو گمان تھا کہ عمر خلیفۃ المسلمین ہیں تو لاؤ لشکر کے ساتھ آئیں گے؛ لیکن انہیں شدید دھچکا لگا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں میں سفر کی صعوبتیں جھیل کر پراگندہ بال وہاں پہنچا، انہیں یہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ جس نے روم وفارس کے غرور کو خاک میں ملایا، کیا وہ ایسا ہوسکتا ہے؟
جب آپ مسجد اقصیٰ کے قریب پہنچے تو پادریوں نے اپنی مقدس کتاب میں لکھی پیشین گوئیوں اور آپ کے حلیے کو دیکھ کر مسجد کے دروازے کھول دئیے اور آپ حضرت داؤد علیہ السلام کی محراب کی جانب بڑھے اور آیت سجدہ تلاوت کی اور بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوگئے، جب عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ مسجداقصٰی کا بانی حضرت یعقوب کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان نے کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔
عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ یہودیوں کا اس بات پر اصرار ہے کہ تاریخی تناظر میں یروشلم اور مسجد اقصیٰ پر ان ہی کا حق ہے، اور مسلمانوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ یروشلم سے مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے وہاں اپنا عبادت خانہ ہیکل سلیمانی (سولومن ٹیمپل) تعمیر کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نبی داؤد اور سلیمان علیہ السلام نے یہاں یہودی عبادت خانہ تعمیر کیا تھا، لہذا آج بھی ہم ہی اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ اس جگہ اپنا عبادت خانہ تعمیر کریں . موجودہ عہد میں یہ اپنی عبادات دیوار براق کے پاس کھڑے ہوکر کر تے ہیں۔
لیکن ان کی یہ بات تاریخی لحاظ سے بھی غلط ہے۔ فلسطین پر عربوں کا حق ثابت کرنے کے لیے درج ذیل نکات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نکات اس تقریر کا حصہ ہیں جو عالم اسلام کے بہترین حکمران سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ فیصل مرحوم نے ایک بین الاقوامی سیمینار میں کی تھی:یہودی فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں۔ یہودی یروشلم کے باہر سے آکر یروشلم پر قابض ہوئے تھے جو فلسطین پر طاقت سے مسلط ہونے کے بعد کچھ عرصہ فلسطین میں رہے اور اس کے بعد نکال دیے گئے۔ فلسطین میں ان کی موجودگی کا عرصہ نہایت مختصر رہا ہے۔ فلسطین میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اب تک کبھی خالص یہودی حکومت قائم نہیں ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کوئی یہودی عبادت خانہ یروشلم میں تعمیر نہیں فرمایا تھا، بلکہ آپ اور آپ کے والد حضرت داؤد علیہ السلام نے مل کر اسی مسجد کی تعمیر کی تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کے دور میں وہاں تعمیر ہوچکی تھی، جسے بعد ازاں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی واپس اس کی بنیادوں پر استوار کیا تھا۔ تو یہ کوئی نئی تعمیر نہیں تھی بلکہ پرانی تعمیر کو دوبارہ کھڑا کیا تھا۔
فلسطین میں یہودیوں کی کبھی اکثریت نہیں رہی۔ جب فلسطین سے یہودیوں کو نکال دیا گیا تو اس میں صرف اس کے اصل باشندے ہی رہ گئے جو شروع سے لے کر آج تک وہیں رہ رہے ہیں۔ سولہ سو سال کی طویل مدت کے دوران فلسطین میں کبھی کوئی یہودی آباد نہیں رہا۔ عربوں کی حکومت تقریبا ساتویں صدی سے فلسطین میں رہی۔ آج وہاں سیکڑوں تاریخی عمارات موجود ہیں جو عرب طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔ اس لیے تاریخی حقائق سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یروشلم یعنی فلسطین پر مسلمانوں ہی کا حق ہے، یہودی لوگ اس پر اپنا حق جو جتلاتے ہیں وہ سراسر دھوکا اور فریب ہے۔ کیوں کہ یروشلم میں حضرت آدم علیہ السلام نے جو مسجد صرف اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی تھی، وہ مسجد آج بھی اسی جگہ موجود ہے اور وہاں صرف اللہ ہی کی عبادت ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف زمانوں میں یہ مسجد شہید ہوتی رہی اور اس کی تعمیر نو ہوتی رہی۔
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے جسے بین الاقوامی طور پر بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ نہیں مانا جاتا۔
پاکستان نے شروع سے ہی اسرائیل کو ناجائز ریاست کہا ہے اور پاکستان کے پاسپورٹ پر بھی یہ لکھا ہے کہ سوائے اسرائیل کے یہ پاسپورٹ ہر ملک کے لیے کارآمد ہے، اسرائیل ایک دہشتگرد ریاست ہے جسے پاکستان سمیت اور کئی ممالک نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا اسرائیل میں 74 فیصد یہودی اور 17 فیصد مسلمان رہتے ہیں یہ فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کرتے ہیں یہ انتہاء پسندی ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی خاموشی عالم اسلام کے لیے سوالیہ نشان ہے تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ سب ایک ساتھ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اقوام متحدہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے سب کی آواز بنیں یہ مسائل ایک دو ملکوں سے حل نہیں ہوں ھے جب تک تمام مسلم ممالک ایک نہیں ہوتے اور ایک کب ہوں گے یہ ہم نہیں جانتے لیکن ایک ہونا پڑے گا عالم کفر مسلم کمیونٹی کو دبانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر شخص اپنی جگہ عالم کفر کا بائیکاٹ کرے اور یہودیوں کا شدت پسندانہ چہرہ سب کے سامنے لائیں اور تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اس بات سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ یہود و نصاری کبھی ہمارے مخلص نہیں ہو سکتے ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ ہمارے مسلمان بھائی بہنیں یونہی شہید ہوتے رہیں گے اور ہم صرف تماشائی بن کر بیٹھے رہیں گے۔