Seerat Un Nabi
سیرت النبی ﷺ
حضرت محمد ﷺ سنہ ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینے میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتش کدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔
جس سال آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔ آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علما 9 ربیع الاول کو درست مانتے۔ آپ ﷺ کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔
آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران میں آپ ﷺ نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران میں آپ ﷺ کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نئے سردار حضرت ابو طالب نے سر انجام دیں۔ حضرت محمد ﷺ نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ ﷺ میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ ﷺ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گزرا ہوگا بلکہ آپ ﷺ میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ ﷺ بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ ﷺ کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ کو مکہ لوٹا دیا گیا۔
تقریباً25 سال کی عمر میں آپ ﷺ نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ ﷺ دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیے بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور ﷺ کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں۔ آپ حضرت محمد ﷺ کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ ﷺ کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ ﷺ نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی، یہ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے شادی کی اور انکی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی، نبی کریم ﷺ نے پہلی شادی خود سے بڑی عمر کی عورت کے ساتھ نکاح کر کے یہ درس دیا کہ نکاح کو عام کریں خود سے بڑی عمر کی عورت کے ساتھ بھی کریں اور چھوٹی عمر کی عورت کے ساتھ بھی لیکن آج کل ہم دیکھ لیں کہ مرد حضرات چار شادیوں پر زور دیتے ہیں اور چاروں شادیاں ہی خود سے بہت چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں سنت رسول اللہ ﷺ زندہ کرتے ہیں، اصل مقصد تب پورا ہوتا ہے جب ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے طریقہ کے مطابق نکاح کرتے ہیں پھر ان میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ جیسی کامل شخصیت نہ کبھی دنیا میں آئی ہے اور نہ ہی تا قیامت آئے گی یہ ہمارا ایمان ہے، انکی مکمل زندگی ہمارے لیے عملی نمونہ ہے ہم انکی حیات طیبہ پڑھیں اور اس پر عمل کی کوشش کریں، نبی کریم ﷺ تو ہر کام میں پوری دنیا کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، اخلاقیات کا درس انکی زندگی سے ملتا ہے کافروں سے بھی نفرت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے اخلاق کی بناء پر انکی زندگی بدلتے تھے، ازدواجی زندگی میں نبی کریم ﷺ جیسی کامل شخصیت کوئی نہیں ہے سب ازواج مطہرات کے ساتھ توازن برقرار رکھا، دین کی تبلیغ کی تو اس احسن طریقے سے کی کہ کافروں کے دلوں پر بھی اثر پڑتا تھا، خود جنگیں بھی لڑیں غرض یہ کہ ہر کام اپنی امت کو کر کے دیکھایا کہ اس طرح سے کریں۔
لیکن آج ہم نے انکی مبارک زندگی کی مثال لینا چھوڑ دی ہے ہم اپنی موج مستیوں میں گم ہیں کہ خدا بھی یاد نہیں، یاد رکھیں دنیا و آخرت کی کامیابی صرف نبی کریم ﷺ کی زندگی پر چلنے پر ہے ہم انکی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کو حضرت محمد ﷺ کی زندگی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں یہی اصل کامیابی ہے ورنہ ہم خسارے میں جانے والے ہیں ہماری جتنی زندگی باقی ہے اسکو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر گزارنے کا فیصلہ کر لیں تو شائد ہماری بخشش کا وصیلہ بن جائے ورنہ جو ہمارے حالات سے ان سے تو لگتا ہے شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا، ہم درندہ صفت لوگ پیدا ہوتی بچیوں کے ساتھ زنا کرتے ہیں، ہم قوم کی جوان بیٹوں کو ڈھول کی تھاپ پر نچواتے ہیں ہم زنا کے اڈے چلاتے ہیں ہم شراب نوشی کرتے ہیں ہم رشوت خوری کرتے ہیں ہمارے اوپر سے لے کر نیچے تک کے لوگ اپنی بساط کے مطابق رشوت لیتے اور دیتے ہیں، ہم اپنے والدین کی نافرمانیاں کرتے ہیں ہم نبی کریم ﷺ کی گستاخی کرنے والی آسیہ ملعونہ کو باعزت بری کرتے ہیں ہم اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں کافروں کے طور طریقے رائج کرتے ہیں، ہم اپنے ہی لوگوں کو ایذا دینے کی کوشش کرتے ہیں مسلمان ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، رب کعبہ کی قسم یہ تو میرے نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ سے سبق نہیں ملتا انکی مبارک زندگی تو پوری امت کے لیے عملی نمونہ ہے ہم انکی حیات طیبہ کو پڑھ کر آج سے ہی عمل شروع کر دیں تو شائد ہم مزید گناہوں کی دلدل سے نکل آئیں اور اپنے اللہ رب العزت کو راضی کر لیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے کچھ سیکھ کر عمل کر لیں تو شائد روز محشر نبی کریم ﷺ کو منہ دیکھانے کے قابل رہ جائیں نبی کریم ﷺ پوری دنیا کے لیے ایک کامل شخصیت ہیں انکی مبارک زندگی سے ہمیں وہ سب کچھ ملتا ہے جو کبھی کسی نہیں ملے گا، ہم اور ہمارے حکمران آج سے ہی نبی کریم ﷺ مے بتائے ہوئے طریقے پر عمل شروع کر دیں تو ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے اور روز قیامت حضورِ اقدس ﷺ کے ہاتھوں سے حوض کوثر کا جام بھی پیئیں گے۔