Role Model
رول ماڈل
قدرت یا تو کسی شخص کو کچھ دے کر آزماتی ہے یا کچھ لے کر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں چاہے ان کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو وہ لوگ دنیا میں آنے کا مقصد سمجھتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں اور تا قیامت یاد رہ جاتے ہیں ۔یہ لوگ انسانیت کے کام آتے ہیں اپنی ذات سے انسانیت کی خدمت کرتے ہیں لوگوں کو اپنے الفاظ سے فائدہ پہنچاتے ہیں اپنے رب کی عطاء کردہ چیزوں کو دیکھتے ہیں شکر ادا کرتے ہیں اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں، بالکل اسی طرح کچھ لوگ ہر وقت ناشکری کی کیفیت میں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں میں بھی نقص نکالتے ہیں منفی سوچ رکھتے ہیں لوگوں کو بجائے فائدہ پہچانے کہ الٹا نقصان کرنے کا سوچتے ہیں ہر وقت منفی سوچوں کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہیں پھر ایک وقت ایسا آتا ہے اللہ نے جو کچھ ایسے لوگوں کو دیا ہوتا ہے وہ بھی آہستہ آہستہ واپس کھینچ لیتا ہے۔
ہماری دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کو دیکھ کر انسان انسپائر ہوتا ہے انکی زندگی کو پڑھ کر انسان کا بہت کچھ کرنے کا دل کرتا ہے، ایسے بہت سے موٹیویشنل اسپیکرز ہیں جن کو آپ سن لیں تو آپ کہیں گے " نفی" جیسا لفظ ہماری زندگی میں ہے ہی نہیں، لیکن اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک ایسا انسان ایک ایسی شخصیت ہمارے درمیان موجود ہے جسے دو جسمانی چیلنجز کا سامنا ہے وہ نا تو چل سکتا ہے اور نا ہی دیکھ سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ شخص اس وقت ہم جیسے لاکھوں تندرست انسانوں سے بہت کامیاب زندگی گزار رہا ہے تو کیا آپ میری بات کا یقین کریں گے؟
چلیں میں آپکو اس شخص کے بارے میں بتاتا ہوں آپ اس شخص کی جد وجہد محنت اور زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے کی گئی کوششوں کے بارے میں پڑھیں گے اور اس شخص کی جسمانی ڈس ایبلٹی کو دیکھیں گے اور اس شخص کی کامیابی دیکھیں گے تو میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں آپ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوں گے آپکی زندگی سے مایوسی کا لفظ نکل جائے گا آپ کی ہر بات میں مثبت فقرے نکلیں گے آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے اور دنیا میں آنے کا مقصد سمجھ کر اس پر کام شروع کر دیں گے۔
محمد محسن نواز صاحب 09 دسمبر 1971 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے، یہ اس وقت ولنگ ویز اور صداقت کلینک کے ایگزیکٹو پی آر کے ڈائیریکٹر ہیں، بات چیت کی اعلی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ، ایک ورسٹائل شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ جب دو سال کے تھے تو پولیو کے حملے کے نتیجے میں انکی ٹانگیں زیر اثر آ گئیں انکی زندگی میں یہ پہلا چیلنج سامنے آیا لیکن انہوں نے اس چیلنج کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اپنے رب کی رضا میں راضی ہو گئے، یہ ذہین تھے پڑھنے لکھنے میں تیز تھے، یہ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو انہیں کہانیاں لکھنے کا بہت شوق تھا انہوں نے اس وقت ماہنامہ پھول نامی رسالہ میں کہانیاں بھیجیں لیکن جب وہ کہانیاں چھپ کر آئیں تو محسن نواز صاحب کی زندگی میں دوسرا اور سب سے برا چیلنج سامنے کھڑا تھا انکی دونوں آنکھوں کی بینائی جا چکی تھی، اب دیکھیں جس بچے کی دو سال کی عمر میں دونوں ٹانگیں اور 13 سال کی عمر میں آنکھوں کی بینائی چھن جائے اسکی کیا کیفیت ہو گی، محسن نواز صاحب کی کہانیاں رسالے میں چھپ کر آئیں لیکن بد قسمتی سے اپنی لکھی ہوئی کہانیاں رسالے میں خود نہ پڑھ سکے۔
محسن صاحب فرماتے ہیں کہ جب میری زندگی میں یہ دو جسمانی چیلنج آگئے تو میں ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ محلے کی ایک خاتون میری والدہ کے پاس آئیں اور کہنے لگی کہ محسن کے ساتھ اچھا نہیں ہوا آپ دعا کیا کریں کہ آپ کے جیتے جیتے اللہ انکو اپنے پاس بلا لے، ماں کے دل کو ٹھیس پہنچی انہوں نے فوراً کہا بہن کیسی باتیں کرتی ہو اللہ محسن کو میری عمر بھی لگا دے، محسن صاحب نے یہ باتیں سنی اور اپنی سوچوں میں گم ہو گئے انکے دل و دماغ کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا مکالمہ شروع ہو گیا، کبھی دل نے کہا کہ محسن تم کچھ نہیں کر سکتے کبھی دماغ نے کہا محسن اٹھو تم بہت کچھ کر سکتے ہو بس تمہیں ہمت کرنی اٹھو کوشش کرو تمہارے سامنے کچھ بھی مشکل نہیں ہے تم کر سکتے ہو، محسن صاحب نے کہا آخر میرے اندر کی ایبلٹی جیت گئی اور میں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا، انکی زندگی میں مشکلات بہت تھی لیکن انہوں نے ان تکالیف سے ہار نہیں مانی اسکی بجائے انہوں نے اس پر غلبہ پایا اور انکو پوری ہمت اور جذبے سے قبول کیا۔
انہوں نے بریل ریڈنگ اور رائٹنگ سسٹم اور آڈیو کیسٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ اردو لٹریچر کے شوقین ہونے کی وجہ سے انہوں نے 1999ء میں اردو لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ انکو سکرین ریڈر سافٹ وئیرز پر مکمل صلاحیت حاصل ہے۔ محسن نواز اپنی کامیابی کا ذمہ دار اپنے مینٹر ڈاکٹر صداقت علی کو مانتے ہیں جو انکے ہنر کو مزید نکھارنے میں ایک قوت کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صداقت انکی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی اس صورت میں لے کر آئے جب انہوں نے 1998 میں انکو اپنی کتابوں کی سیریز:، ون منٹ منیجر-اردو کے پروجیکٹ میں انکو ٹیلی مارکیٹر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کا موقع فراہم کیا۔ اس پروجیکٹ کی زبردست کامیابی انکی زندگی میں ایک سنگ میل ثابت ہوا اور انکے معاش کی بنیاد بنا۔ انکے جلدی سیکھنے کی صلاحیت اور ذمہ دار رویے نے انکو پروفیشنلی کامیاب ہونے کے مختلف مواقع فراہم کیے۔
اب وہ ولنگ ویز کے ڈائریکٹر سیلز اور پی آر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صداقت علی کے مشیر خاص کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صداقت علی اور انکی پروفشنلز کی ٹیم کے ساتھ کام کرتے کرتے انہوں نے کاؤنسلنگ اور سائیکالوجی کے متعلق کافی علم حاصل کر لیا ہے۔ محسن کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صداقت علی کے بھر پور تعاون اور حو صلہ افزائی نے انکی زندگی میں بھروسہ اور مثبت انداز میں اثر انداز کیا ہے۔
محسن صاحب کی دلکش اور پر سکون آواز کئی دلوں کی دھڑکن بن گئی جب انہوں نے "مست ایف ایم 103 " کو اسکے شروعاتی دور میں جوائن کیا اور اپنا مشہور اور ایک خاص رحجان پیدا کرنے والا شو شروع کیا۔ وہ ایف ایم کے سب سے ذیادہ مشہور آر جے ہیں، جن کے شائقین کی تعداد بے شمار ہے۔ وہ ویب ریڈیو چینج او کلاک کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے محسن صاحب کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے معذور افراد کے لیے نئی راہیں کھولیں اور مختلف جسمانی معذوریوں کے ساتھ بھی دنیا میں پہلے ریڈیو اور ٹی وی کے میز بان رہ چکے ہیں۔
وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے ایک مسیحا کی طرح ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں یہ تمام جوانوں کے لئے بھی ایک موٹیویٹ شخصیت ہیں، انکو 2010 میں وائس سوسائٹی کی طرف سے بیسٹ آئیکان کے اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ انکی نایاب خصوصیات کو مانتے ہوئے انکو سوسائٹی کی اعزازی چیئر مین شپ بھی دے دی گئی۔ انکو مختلف اداروں اور یونیورسٹیز کی جانب سے مو ٹیویشنل ٹاکس کے لیے دعوت دی جاچکی ہے، جس میں 2008 میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پاکستان کی انڈر نائنٹین ٹیم سے بات چیت بھی شامل ہے۔
محسن نواز صاحب کی پر کشش شخصیت نے ہمیشہ الیکٹرا نک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں خاص جگہ ہی حاصل کی ہے، اگر آپ نے کبھی ان کو ریڈیو یا سوشل میڈیا پر سنا ہے تو آپ بھی انکی جادوئی آواز کے گرویدہ ہوں گے، میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت کم لوگ دیکھیں ہیں جو اتنی مشکلات سے لڑ کر بھی ہنس مکھ ہیں اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، محسن صاحب کی خاص بات انکی شخصیت انکی آواز انکے اخلاق اور سب سے بڑھ کر انکی مثبت باتیں کسی بھی شخص کو مایوس نہیں کرتیں، آپ جتنے بھی مایوس ہوں جتنی بھی پریشانیاں ہوں آپ چند منٹ لگا کر محسن صاحب کو سنیں انکی زندگی پڑھیں آپ میں ایک تبدیلی رونما ہو گی، آپ خود میں ایک بدلاؤ لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، آپ کی زندگی سے مایوسی کا لفظ ختم ہو جائے گا۔
انسان کی زندگی میں "مثبت" اور "منفی" دو تاثرات پائے جاتے ہیں کوئی بھی شخص کچھ دیر ایک اثر کے محور میں بیٹھ جائے اس میں اسی اثر کی تبدیلی رونما ہو جائے گی، اگر آپ منفی سوچ رکھتے ہیں تو آپ کبھی کسی شخص کو مثبت بات نہیں کہ سکیں گے لیکن اگر آپ مثبت سوچ کے مالک ہیں تو آپ دنیا کے مایوس سے مایوس شخص کی زندگی میں بھی امید کی کرن لا سکتے ہیں لوگوں کی مایوس زندگی میں اجالا لانے والے چند لوگوں میں محسن نواز صاحب بھی شامل ہیں انکی بدولت بہت سے مایوس لوگ اپنی زندگی میں بدلاؤ لا چکے ہیں، اگر آپ بھی پریشان ہیں مایوس ہیں تو ایک بار محسن نواز صاحب کی طرف دیکھیں یہ آپکو مسکراتے ہوئے ملیں گے انکے چہرے پر ایک جوش اور جذبہ نظر آئے گا ٹوٹے لوگوں کو حوصلہ دینے کا پریشان لوگوں کو دلاسہ دینے کا اور مایوس لوگوں کو امید کی کرن دینے کا ایک جذبہ انکے چہرے پر ہر وقت نظر آتا ہے۔ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن پھر بھی منفی سوچوں کے چنگل سے نہیں نکل پارہے، ہر وقت مایوسی کی کیفیت میں رہنے لگے ہیں، کیا ہمارے اسلاف نے یہ درس دیا ہے ہمیں نہیں ہر گز نہیں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا فلسفہ حیات پڑھیں انکی بات میں امید ہے انکے ہر مصرع میں ایک روشنی ہے ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن پھر بھی مایوس۔
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر آج تہ دل سے تہیہ کر لیں کہ ہم نے کرنا ہے میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں ہم کر جائیں گے ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم ترقی بھی کریں گے لوگ تا قیامت ہمیں یاد بھی رکھیں گے، آخر میں راقم الحروف محسن نواز صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ انکی زندگی سے ہمیں ایک مکمل تحریک ملی جس پر عمل کر کے ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں اور محسن نواز صاحب یقیناً ہمارے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔