Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Pandora Ka Dhandora

Pandora Ka Dhandora

پینڈورا کا ڈھنڈورا

میں نے چوری کی ہے اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور نظریں جھکا لی، کتنے کی چوری کی ہے میں نے اس سے سوال کیا اس نے کہا جناب 1ہزار روپے کی، کیوں چوری کی ہے میں نے ادھر ادھر دیکھ کر اس سے مزید ایک سوال کیا، اس نے کہا کھانے کو روٹی نہیں تھی بچے بھوکے تھے مجبوری میں چوری کرنی پڑی لیکن پکڑا گیا پہلے محلے والوں نے مارا پھر پولیس نے گالیوں اور مکوں کی بارش کر دی میں مارسہہ نہیں سکا میں نے جرم کا اعتراف کر لیا اس لیے اب حوالات میں ہوں۔

یہ پنجاب کے ایک دور دراز علاقے کا حوالات تھا جس میں میری اس شخص سے ملاقات ہوئی میں نے اس کی ضمانت کے لیے کاغذی کارروائی کی اور اسے اس کے گھر بھیج دیا، یہ ہماری جیلوں میں پڑا ایک کیس ہے ایسے ہزاروں کیس ہماری جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ان کا قصور چھوٹی موٹی چوریاں یا اور معمولی جرائم ہیں یہ غریب طبقہ ہے ان کے پیچھے طاقتور وکیل یا پیسہ نہیں ہے اس لیے وہ جیلوں میں قید ہیں ہمارے ملک میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک غریب طبقہ ہے جس کی مثال آپ کو اوپر دے چکا ہوں دوسرا طبقہ اشرافیہ ہے جو اربوں کی چوری کرتے ہیں اور ملک سے باہر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔

صحافیوں کی تحقیقاتی تنظیم آئی سی آئی جے نےاٹھارہ ماہ کی محنت کے بعد وہ لوگ تلاش کیے جنہوں نے اپنے ملک سے پیسہ چوری کر کے بیرون ملک کمپنیاں بنائی چونکہ یہ رجسٹرڈ نہیں تھا اس لیے غیر قانونی ہوا اس تحقیقاتی تنظیم نے یہ مکمل ڈیٹا جسے پینڈورا پیپرز کا نام دیا گیا تھا سب ملکوں کو بھیج دیا، یہ پیپرز پاکستان آئے اور اس میں پاکستان کے تقریباً 700 لوگ ملوث تھے یہ خبر واقعی ہی چونکا دینے والی تھی ان پیپرز میں موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، ق لیگ کے مونس الٰہی سمیت درجنوں لوگ تھے جب بھی ہمارے ملک میں ایسے پیپرز آتے ہیں ان میں شریف خاندان پہلے سے ہی شامل ہوتا ہے پینڈورا پیپرز میں بھی اسحاق ڈار کا بیٹا علی ڈار شامل ہے۔

کئی سابق جرنیل اور بزنس مین شامل ہیں اس سے پہلے آپ کو یاد ہو گا 2013ء میں آف شور لیکس آئی تھیں اس کے بعد سال 2016ء میں پاناما لیکس آئی تھیں جس کے کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا پھر پیراڈائز پیپر آئے اور اب پینڈورا پیپرز، پینڈورا پیپرز کی تحقیقات 117 ممالک میں 600 سے زائد رپورٹرز کے کام کا نتیجہ ہے جسے وہ تلاش کر کے متعلقہ لوگوں تک بھیجتے ہیں پھر ان سے سوال وجواب کرتے ہیں پھر یہ فائلز ملکوں کے سربراہان کو دی جاتی ہیں، پاناما لیکس میں پاکستان کے 300 بااثر لوگ شامل تھے اور پینڈورا پیپرز کے مطابق پاکستان کی 700 شخصیات نے منی لانڈرنگ کی۔

پاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا شخص ہماری عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم جسے پاناما لیکس میں مجرم قرار دیا گیا تھا بجائے اپنی سزا پوری کرے اور جیل کاٹے وہ ملک سے باہر بیٹھا ہے، اس کے ساتھ ہی جب پاناما کیس کھلا تو اسحاق ڈار کے گرد گھیرا تنگ ہوا تب یہ انکشاف ہوا تھا کہ 1993ء میں اسحاق ڈار کے کل اثاثے 90 لاکھ 11 ہزار روپے تھے جو 2000ء میں صرف سات سالوں میں 83 کروڑ 17 لاکھ تک پہنچ گئے، یہ کیسے ہوا اس کا کوئی جواب نہیں ایک برطانوی اخبار نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ شریف فیملی نے دولت چھپا رکھی ہے حسن، حسین اور مریم صفدر نے چار آف شور کمپنیاں بنائی ہیں، سب تحقیقات ہوئیں پیشیاں ہوئیں مجرم ثابت ہوئے لیکن پھر جیلوں سے نکل گئے ایسا کیوں ہوتا ہے یہ سوالیہ نشان ہے، ہمارے ملک میں ایک غریب چور جو ہزار روپیہ چوری کرتا ہے اسکا جرم ثابت کرنے کے لیے تھرڈ ڈگری دیا جاتا ہے جیل میں جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے لیکن جو اربوں روپے چوری کر لے وہ سکون سے گھروں میں رہتے ہیں اور عوام سے کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں ریلیاں نکالیں یہ دنیا کا کون سا قانون ہے مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔

عمران خان نے 22 سال محنت کی کہ میں ایماندار ہوں میں ان چوروں ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا میں کرپشن کے خلاف جنگ لڑوں گا، عمران خان نے ملکی تاریخ کا سب سے طویل دھرنہ بھی اسی لیے دیا تھا کہ یہ دھاندلی کر کے اقتدار میں آئے ہیں مجھے انصاف دیں، لیکن تاریخ نے یاد رکھا جب عمران خان کو اقتدار ملا تو اس نے ان چوروں کو باہر بھی جانے دیا مہنگائی بھی کی اور کرپٹ سیاست دانوں کو اپنے ساتھ جوڑے بھی رکھا۔

عمران خان سے اب پوچھنا چاہیے کہ پینڈورا پیپرز میں شوکت ترین، فیصل واوڈا، خسرو بختیار اور مونس الٰہی کے نام شامل ہیں اپ ان سے استعفیٰ کیوں نہیں لیتے کیوں تب تک ان سے سیٹ واپس نہیں لیتے جب تک یہ خود کو آپ کی طرح صادق و امین ثابت نہیں کرتے، عمران خان اکثر اپنے خطاب میں چین کی مثال دیتے ہیں کہ چین نے اس طرح ترقی کی، عمران خان کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ چین نے گزشتہ 14 سال میں 13 لاکھ سے زائد لوگوں کو کرپشن کے الزامات میں سزا دی ہے عمران خان کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ چین کی حکمران جماعت کے انتہائی طاقتور وزیر اور شی چن پنگ کے متوقع جاں نشین ژی جون کو کرپشن کرنے پر سزائے موت بھی سنائی گئی ہے، اورعمران خان نے کسی کو کرپشن کرنے پر نااہل تک نہیں کیا۔

ہم بحیثیت قوم مجموعی طور پر غلام ہیں ہم نے اپنی اپنی سیاسی جماعت کو پکڑا ہوا ہے ہم اس کی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہم اپنے نظریے کو پیچھے چھوڑ کر سیاسی لیڈر کے لیے مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ہم احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں توڑ پھوڑ کرتے ہیں لیکن ہم کبھی اپنے سیاسی لیڈر سے اس کی غلطیوں کا سوال نہیں کرتے ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتی یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں دو قانون ہیں غریب کے لیے جیل کی سلاخیں اور امیر کے لیے بیرون ملک کی ہوائیں جب تک ہم یہ الگ الگ قانون والا سسٹم ختم نہیں کریں گے تب تک تبدیلی نہیں آئے گی غریب اسی طرح ہزار روپے کی چوری پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاتے رہیں گے اور اشرافیہ اربوں کی کرپشن کر کے باہر بھاگتے رہیں گے عوام ان کے حق میں جلسے کرتی رہے گی ہر بار اسی طرح پینڈورا پیپرز جیسے ایشوز آتے رہیں گے ہم کچھ دن ان کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے پھر اس کے بعد مکمل خاموشی ہو گی اور پھر سیاسی لیڈروں کے نعرے لگاتے رہیں گے، لیکن کیوں؟ اس کیوں کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari