Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Mohsin e Pakistan

Mohsin e Pakistan

محسن پاکستان

آنکھوں میں ابھی نیند کا خمار تھا اور طبیعت میں تھکن تھی بند آنکھوں سے فون کان کو لگایا تو آواز آئی کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب ہم میں نہیں رہے میں نے اس خبر کو بھی افواہ ہی سمجھا اور فوراً تصدیق کے لیے کچھ جگہوں پرفون کیے تو ہر جگہ سے یہی جواب ملا عبد القدیر خان صاحب ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب 1936ء کو بھوپال بھارت میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے چند سالوں بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے کراچی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری لینے کے بعد میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد وہ اسکالرشپ کے تحت اعلی تعلیم حاصل کرنے جرمنی اور پھر ہالینڈ سے مٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس اور بعدازاں انہوں نے بیلجیئم میں میٹلرجیکل انجنیئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

1975 میں ڈاکٹر صاحب یورینکو نامی یورینئم افزودگی کے ایک کارخانے میں کام کر رہے تھے جب حکومت پاکستان نے انہیں نے اپنی خدمات پاکستان کے لیے پیش کرنے کا کہا اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان آنے کا کہا، ڈاکٹر صاحب یورینئم کی افزائش کرنے والی مشینوں سینٹری فیوجز کے نقشے اپنے ساتھ لے آئے اور پاکستان نے ان نقشوں کے مطابق اپنے یورینئم افزودگی کے کارخانوں میں ان مشینوں کے پرزوں کو یکجا کر کے نصب کیا اور اس پر کام شروع کر دیا ڈاکٹر صاحب نے تقریباً 8 سال کی انتھک محنت و لگن کے ساتھ پاکستان کو نیوکلیائی قوّت بنا دیا لیکن تجربات کافی دیر بعد کیے۔

ڈاکٹر صاحب کو حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے بڑے اعزازات سے نوازا گیا اور کئی طلائی تمغے بھی حاصل کیے، پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کے تمام بڑے ممالک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، امریکہ کو یہ بات کھٹکنے لگی اور اس نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کی معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کی ہیں جس میں ایران اور لیبیا وغیرہ شامل تھے، پاکستان پر یہ الزامات لگے اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو امریکہ کی جانب سے خبردار کیا گیا، پرویز مشرف اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر میں لکھتے ہیں کہ ستمبر 2003ء میں اقوام متحدہ کی سربراہی کانفرنس دوران جب میں صدر بش سے ملا تو وہ مجھے ایک طرف لے گئے اور پوچھا کہ کیا میں اگلی صبح سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ سے مل سکتا ہوں تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

جارج ٹینیٹ سے ملاقات کا آغاز خوش گپیوں سے ہوا جس کے بعد انہوں نے کچھ کاغذات نکال کر میرے سامنے رکھ دیے میں فوراً پہچان گیا کہ وہ پاکستان کی سینٹری فیوجز کے نقشے تھے، اگر چہ اب وہ ہمارے استعمال میں نہیں تھے لیکن ہمارے پروگرام کے اوائل میں ڈاکٹر صاحب کی زیر نگرانی یہ نقشے بنائے گئے تھے یہ کاغذات اور نقشے پرزوں کے نمبروں اور دستخطوں کے ساتھ مکمل تھے، پرویز مشرف نے وہ کاغذات واپس لیے اور پاکستان آگئے اور تفتیش کا آغاز کر دیا اورآخر کار ڈاکٹر صاحب کو قوم سے معافی مانگنے پر راضی کر لیا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی پر 2004ء میں پوری قوم سے معافی مانگی اور اس کے بعد پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا کافی عرصہ نظر بند رہنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ میں نے پہلی مرتبہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر بچایا اور دوسری مرتبہ تمام الزامات اپنے سر لے کر بچایا۔

ڈاکٹر صاحب کے اس بیان میں واقعی سچائی ہے جو کچھ بھی ہوا اس میں ممکن ہے کہ اور بھی بہت سے لوگ ملوث ہوں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور بھی بہت سے لوگ ملوث ہو سکتے ہیں لیکن سزا صرف ڈاکٹر صاحب کو ملی، ڈاکٹر صاحب نے 2012ء میں بینظیر بھٹو پر بھی یہ الزام لگایا تھا کہ ان کی ہدایات پر میں نے دو ملکوں کو ایٹمی راز مہیاء کیے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے۔

ڈاکٹر صاحب کے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے اس قوم کے لیے کام کرنے پر پچھتاوا ہے ڈاکٹر صاحب سچے ہیں انہیں واقعی ساری زندگی یہ پچھتاوا رہا انہوں نے اپنی باقی زندگی بڑے دکھ میں گزاری ہم نے ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے، تاریخ گواہ ہے ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا ہم بے حس ہیں، ہم ان کو تو چھوڑ دیتے ہیں جنہوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہوتی ہے، ہم ایسے شخص کو تو باہر جانے دیتے ہیں جس نے کئی قتل کیے ہوں لیکن ڈاکٹر صاحب کو نظر بند کر دیتے ہیں کہ ملک و سلامتی کو خطرہ ہے، ہم بحیثیت قوم ڈاکٹر صاحب کے مجرم ہیں ہم نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا ہم نے ان کو قومی اعزاز کے ساتھ تو دفنا دیا لیکن ہمارے وزیر اعظم ہمارے اعلیٰ افسران جنازے میں بھی نہ آسکے در حقیقت ہم ظالم لوگ ہیں ہم چوروں کے استقبال کے لیے تو سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں ان غداروں کے لیے ہم جان دینے اور لینے تک آجاتے ہیں لیکن محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کے لیے ہم نے کیا کیا؟

یہ وہ سوال ہے جو ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی ہم نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، کیا واقعی ہم بے وفا ہیں، اگر ہیں تو آج سے ہی ہمیں سوچنا ہے کہ ہم آئندہ اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کریں گے، اور جو لوگ ملک کے وفادار ہیں ان کے لیے مخلص رہیں گے نا کہ ان کے لیے جئیں جو ملک میں رہتے ہی نہیں ملک کے وفادار بنیں ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جو ملک کے ساتھ مخلص تھے جنہوں نے ملک کے لیے کچھ بہتر کام کیا جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آخر کار جان بھی وطن عزیز میں ہی دی نا کہ دوسرے سیاست دانوں کی طرح بیماری کا بہانہ کر کے ملک سے بھاگ گئے اور جب اقتدار ملا تو پاکستان آگئے، ملک کے لیے جینے اور مرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں محسن پاکستان ڈاکٹر صاحب جیسے عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلیں تا کہ کل نام پکارا جائے تو وفاداروں میں پکارا جائے نا کہ غداروں میں، بہرحال ہمیں ایک بار محسن پاکستان ڈاکٹر صاحب سے معافی ضرور مانگنی چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر سکے ہم ان کو ان کے شایان شان طریقے سے رخصت نہیں کر سکے ڈاکٹر صاحب پوری قوم شرمندہ ہے اور معافی چاہتی ہے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra