Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Jannat Ka Tukra

Jannat Ka Tukra

جنت کا ٹکڑا

دن کے دو وقت انسان کو بہت خوبصورت لگتے ہیں صبح کا وقت جب سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے پرندے گھونسلوں سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں کھیتوں کے درمیان کھڑے ہو کر سورج کو دیکھیں اور کھیتوں پر پڑتی سورج کی کرنیں زمین پر محبت سے بھری روشنی ڈالتی ہیں یہ منظر بہت خوبصورت لگتا ہے، ایک شام کا وقت جب سورج غروب ہوتا ہے میں قلعہ دراوڑ کی اونچی فصیل پر کھڑا تھا میرے سامنے حدِ نگاہ پھیلا صحراء اپنی ایک الگ ہی داستان سنا رہا تھا۔ قریب ہی ایک سنگ مرمر سے بنی خوبصورت مسجد جو دہلی میں موجود سرخ قلعہ میں موجود موتی مسجد کی مکمل کاپی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے، جہاں چودھویں کا چاند ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ اس کو سمجھیں آپ کو اس منظر سے محبت ہو جائے گی، آپکو اس صحراء میں شام کے وقت کہیں دور سے جانوروں سے گلے میں بندھی (ٹلی) گھنٹی سنائی دے گی یہ مسحور کن آواز کانوں میں رس گھولتی ہے آپ اس منظر کو دیکھیں آپ کو صحراء سے عشق ہو جائے گا آپ رات کے وقت ریت پر چلیں یہ ٹھنڈک آپکو دماغ تک محسوس ہو گی، یہی ریت دن میں گرم ہو جاتی ہے، میں قلعہ کی دیوار پر کھڑا سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا تھا آسمان پر لالی آچکی تھی عجیب وحشت اور اداسی کا ماحول تھا میں نیچے اترا اور ریت پر چلنے لگا۔

چولستان بہاولپور سے کم وبیش 30 کلومیٹر کی مسافت پر موجود ہے۔ اس کا رقبہ ایک ہزار، دو سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ صحرائے تھر سے جا ملتا ہے جوکہ بھارت اور سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنوب مشرق میں بھارتی ریاست راجھستان سے جا ملتا ہے مؤرخین کے مطابق یہاں تقریباً 400 قلعے تھے ان کی دیواریں جپسم اور گارے سے تعمیر کی گئی تھیں۔ کچھ کا وجود تو ایک ہزار قبل مسیح کا پتہ دیتا تھا۔ اس کا مشہور و معروف مقام قلعہ دراوڑ ہے۔ یہ قلعہ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے 49 کلومیٹر کی مسافت پر صحرا کے وسط میں موجود ہے۔ 220 میٹر کے اس چوکور قلعہ میں 40 برج ہیں۔ اس قلعہ میں سے ایک سرنگ موجود ہے جو اپنے عروج کے زمانہ میں براستہ جیسلمیردہلی تک جاتی تھی۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ ایک نالہ موجود ہے۔ مورخین کے مطابق یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا جو کہ دریائے ستلج کی ایک شاخ تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ریاست جیسلمیر کے راجہ کی ملکیت تھا، اسے اس کے بھانجے نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کی دوبارہ تعمیر نواب محمد بہاول خان اول نے 1733 میں کروائی۔ جبکہ ریاست بہاول پور کی الگ عملداری کا آغاز 1690 میں ہوا اور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا 1719 تا 1748 کے دور میں باقی صوبے داروں کی طرح یہ ریاست بھی خودمختار ہوگئی جبکہ 22 فروری 1833 کو انگریزوں اور بہاولپور ریاست کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کی روسے یہ ریاست بڑٹش سٹیٹس آف انڈیا کے ماتحت آگئی جو کہ ڈائریکٹ برطانوی عمل داری کا حصہ نہیں تھی۔ چولستان میں تفریح کا آغاز پنجاب ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے کیا اس کی سب سے بڑی خوبی چولستان جیپ ریلی فروری کے مہینے میں ہوتی ہے جب یہاں رات سرد اور دن معتدل ہوتا ہے۔

چولستان جیپ ریلی کا آغاز 2005ء میں ہوا جو کہ اب ایک بین الاقوامی سطح کی سرگرمی بن چکی ہے، جس میں نامور ملکی و غیرملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ اب خواتین ڈرائیورز بھی حصہ لیتی ہیں۔ تین سے چار روز پر مشتمل یہ کھیل نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ ریاست بہاولپور کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثہ کوبھی اجاگر کرنے کا باعث ہے اور جنوبی پنجاب میں موسم سرما کی سیاحت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس ریلی کی بدولت شائقین سفر کے منفرد تجربہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ چولستان کے تاریخی مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر مقامی فنکاروں کے پروگرام، آتش بازی، صحرا میں لگائے گئے محفوظ کیمپوں میں شب بسری، اونٹ اور جیپ پر شکارکرنا تقریب کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے۔

چولستان جیپ ریلی تین دن تفریح مہیاکرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے پھر اس ویران صحراء میں کوئی نہیں جاتا یہاں کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کوئی وزیر نہیں جاتا چولستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی اور صحت کا ہے یہاں پر نہری پانی نہیں پہنچ پاتا چولستان کے باسی ٹوبوں سے پانی پیتے ہیں یہ اپنے جانوروں کی خوراک کے لئے بھی میلوں سفر کرتے ہیں، چولستانیوں کو کیے گئے زمینی الاٹمنٹ کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے، الیکشن کے دنوں میں ہمارے سیاستدان وہاں جاتے ہیں مسائل سنتے ہیں اور انکو حل کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں چولستان کے باسی ووٹ دیتے ہیں سیاستدان جیت کر ایوانوں میں چلے جاتے ہیں یہ چولستان کو بھول جاتے ہیں۔

اب آپ چولستانیوں کی قسمت دیکھیں کہ ایک شخص اگر چولستان میں قلعہ کے قریب بیمار ہوتا ہے تو اسے ابتدائی طبی امداد کیلئے بھی تقریباً 45کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے مریض کو وہاں لایا جاتا ہے وہاں بھی اگر ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر بہاولپور جو تقریباً 100 کلومیٹر کی مسافت پر ہے، چولستان کے باسی مدد الہٰی کے منتظر ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا ہماری تقدیر بدلے گا لیکن یاد رہے جب تک کوئی قوم خود کی حالت نہ بدلنا چاہے کوئی اسے نہیں بدل سکتا، یہاں کے باسیوں کو چاہیے کہ وہ ووٹ لینے آنے والے سیاستدانوں سے اپنے مسائل حل کروائیں اپنی ٹوٹی سڑکیں پختہ کروائیں وہاں کوئی ڈاکٹر تعینات کروائیں الاٹمنٹ کے لیے آواز بلند کریں پانی کے مسائل کو اجاگر کریں پانی زندگی ہے" کی مثال کو اگر لیا جائے تو یہ مثال حقیقت میں چولستان پر صادر آتی ہے ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو ریاست بہاولپور کے آخری فرمانروا نواب سر سادق محمد خان عباسی کا وہ عزم نظر آتا ہے جو انہوں نے ہیڈ پنجند سے چولستان کو سیراب کرنے کیلئے ایک بڑی نہر نکالنے کی شکل میں شروع کیا جو آنے والے ہر حکمران کا منتظر ہوتا ہے چولستان میں اک عرصہ سے بارش نہ ہونے سے مقامی روہیلوں کا روزگار دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے جانوروں اور انسانوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ ان کی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں، لیکن ہر سال چولستان جیپ ریلی کے موقع پر بہت سے سیاستدان وزراء بزنس مین چولستان جاتے ہیں اس جنت کے ٹکڑے کا نظارہ کرتے ہیں وہاں کے خوبصورت مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کرتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں، اسی طرح ہر بار الیکشن کے دنوں میں سیاسی لیڈر جاتے ہیں عوام کے دل جیتتے ہیں انکو کامل یقین دلاتے ہیں ووٹ حاصل کرتے ہیں پھر واپس چولستان نہیں جاتے وہاں کے لوگ وہاں کے جانور مرتے رہیں کسی کو کوئی فکر نہیں اس میں زیادہ قصوروار خود چولستانی ہیں وہ سیاستدانوں سے اپنے کام نکلوا سکتے ہیں لیکن وہاں کے لوگ ان سیاسی لیڈروں کو ووٹ دے کر انکو عیش و عشرت کی زندگی فراہم کر کے خود پانی کی ایک بوند کو ترستے ہیں، ایوانوں میں بیٹھے ہمارے حکمران اگر صحرائے چولستان پر ایک نظر ڈالیں تو ہو سکتا ہے یہ علاقہ سیاحت کے لحاظ سے سود مند ثابت ہو، لیکن اس سے پہلے چولستانیوں کے مسائل حل کریں۔

ورنہ آدھی صدی سے مسیحا کے منتظر یہ چولستانی انتظار کرتے کرتے مر جائیں گے یہ بے رحم صحراء کی تپتی ریت کی نظر ہو جائیں گے لیکن پھر بھی ہر سال یہاں جیپ ریلی ہوتی رہے گی عام انتخابات کے دنوں میں سیاستدان آتے رہیں گے ووٹ لے کر جاتے رہیں گے اور چولستان کے باسی مرتے رہیں گے یہاں کے بچے ہمیشہ جانور چراتے چراتے بڑے ہوں گے انکو کہیں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع نہیں ملے گا یہ جنت کا ٹکڑا ایسے ہی باہر کے لوگوں کو تفریح فراہم کرتا رہے گا چولستانی سوتے رہیں گے یہ آواز بلند نہیں کریں گے لیکن اگر یہ سب ایک ہوجائیں مسائل کو اجاگر کریں تو یہ کامیاب ہو جائیں گے۔

Check Also

Special Bachon Ka Social Network

By Khateeb Ahmad