Hum Sharminda Hain
ہم شرمندہ ہیں
وہ 13 اپریل 1992 کو گوجر خان جو راولپنڈی سے تقریباً 50 کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اس میں پیدا ہوا والد کا نام راجہ محمد فیاض ہے یہ اپنے سات بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر سب سے چھوٹا ہے یہ بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا وسیم اکرم جیسے عظیم پلئیر کو ماڈل مان کر انکی طرح گیند پھینکنے کی کوشش کرتا، یہ اپنے قصبہ میں غیر معمولی بالنگ کی وجہ سے مشہور تھا، 2003 میں 11 سال کی عمر میں اسے ایک مقامی ٹورنامنٹ میں جگہ ملی جہاں اس نے اپنے جادوئی بالنگ سے سب کو حیران کر دیا، باجوہ کرکٹ اکیڈمی کے چیئرمین آصف باجوہ انکو راولپنڈی لے آئے اور اس بچے پر محنت کرنے لگے بچے میں شوق تھا ٹیلنٹ تھا نکھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
اس نے اپنے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز نومبر 2008 میں کیا اسکی بالنگ سے سب متاثر ہونے لگےجلد ہی یہ پاکستان کرکٹ اکیڈمی بورڈ کی نظروں میں آگیا اور اسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا اس نے 17 سال کی عمر میں اپنا پہلا قومی ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلا جس میں اس نے اپنے اوور کی دوسری گیند پر روی بوپارہ جیسے بلے باز کو آؤٹ کیا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم میں محمد عامر کے نام سے اپنی جگہ مضبوط کر لی۔
محمد عامر قومی ٹیم میں شمولیت کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ لاہور آگئے لاہور سے انہوں نے اپنے کیرئر کا آغاز کیا جلد ہی پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجا دی انکی جادوئی بالنگ سے بڑے بڑے بلے باز جن میں سچن ٹنڈولکر رکی پونٹنگ مائیکل کلارک بھی محمد عامر کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے، محمد عامر اور محمد آصف کی شکل میں پاکستانی ٹیم کو وسیم اکرم اور وقار یونس کا متبادل مل گیا تھا جو ایک عظیم جوڑی تھی۔
پاکستان نے 2010 میں دورہ انگلینڈ کیا جس میں محمد عامر اور آصف کی نوبالز کا ایشو آیا اور 29 اگست 2010 کو انکو سپاٹ فکسنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا انکا کیس انگلینڈ میں چلا وہاں کی عدالت نے عامر کو 6 ماہ جیل اور پانچ سال کرکٹ سے دوری کی سزا سنائی جو محمد عامر کے لئے نہایت اذیت ناک مرحلہ تھا، محمد عامر نے تب پوری قوم سے معافی مانگی اور سزا کاٹنے لگے پانچ سال کرکٹ سے دور رہ کر 19 اگست 2015 کو محمد عامر کو 2 ستمبر 2015 سے ہر طرح کی کرکٹ کھیلنے کے لئے مکمل طور پر آزاد قرار دے دیا گیا۔ 15 جنوری 2016 کو انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی میچ میں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کی۔ فروری 2016 میں عامر نے کراچی کنگز کے لئے پاکستان سپر لیگ کے میچ میں ہیٹ ٹرک لی۔ انہوں نے 2016 میں ایشیا کپ کے پہلے ٹی ٹونٹی ایڈیشن میں بھی حصہ لیا بعد میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف اپنی بین الاقوامی واپسی کی جہاں سے عامر پر ایک بار پھر عروج آیا۔
عامر نے چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف فائنل میں حیران کن بالنگ کی اور پاکستان چیمپئنز ٹرافی کا فائنل جیتا، جس کے بعد ویرات کوہلی جیسے عظیم پلئیر نے عامر کو خطرناک بالر قرار دیا۔
عامر مختلف میچز میں اپنا کردار ادا کرتا رہا اس دوران اسے کچھ انجریز ہوئیں اور عامر نے جولائی 2019 کو ٹیسٹ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی یہ 36 ٹیسٹ میچوں میں 119 وکٹیں لے چکے تھے، عامر کا جسم تھکن کا شکار ہونے لگا تھا اسے مختلف انجریز تھیں اسکا یہ بہت اچھا فیصلہ تھا، جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڑ اور لوگوں نے عامر کو خود غرض کہا کہ ٹیم کو ضرورت تھی اور عامر چھوڑ گیا لیکن خیر یہ عامر جانتا تھا کہ اسکا جسم اب پانچ روزہ میچ میں ساتھ نہیں دیتا اس نے ریٹائرمنٹ لے لی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ تبدیل ہوئی مصباح الحق اور وقار یونس آگئے عامر کے ساتھ ناراوا سلوک ہونے لگا عامر نے مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی عامرکو انٹرنیشنل میچوں میں کم موقع ملنے لگا عامر مختلف لیگز کھیلنے لگا۔
2020 میں پاکستان نے دورہ نیوزی لینڈ کرنا تھا جس میں کھلاڑیوں کے اسکواڈ میں محمد عامر اور شعیب ملک جیسے عظیم پلیئرز کو شامل نہ کرنا قابل تشویشناک بات تھی، عامر اور شعیب ملک لنکا پریمئر لیگ کھیلنے چلے گئے لیکن پھر 17 دسمبر 2020 کو محمد عامر نے انٹرنیشنل ہر طرح کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا، عامر نے اعلان کیا کہ اس طرح کی مینجمنٹ کے ساتھ میں نہیں کھیل سکتا، یہ سننا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میدان میں آگیا اورعامر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جس کے جواب میں عامر نے نہایت اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے پی سی بی کو بھی بتا دیا ہے، میں نے یہ فیصلہ جذبات میں آکر نہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "بطور کھلاڑی ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر ہم کارکردگی دکھائیں گے تو ٹیم میں رہیں گے ورنہ باہر ہوجائیں گے اس لیے یہ ایشو نہیں ہے، ایشو میری ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ سے اٹھا، اس وقت انتظامیہ میں مکی آرتھر بھی تھے اور انہیں معلوم تھا کہ میں ورلڈ کپ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے رہا ہوں، اس وقت کسی کو کوئی ایشو نہیں ہوا"۔
ان کا کہنا تھا کہ "پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے بعد میرا ٹیسٹ فارمیٹ کے لیے انتخاب کیا گیا، ٹیم آسٹریلیا گئی اور وہاں ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد باؤلنگ کوچ وقار یونس اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کے میرے خلاف بیانات سامنے آئے اور وہ میرے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ عامر لیگ کھیلنے کے لیے ہمیں چھوڑ گیا"۔
محمد عامر نے کہا کہ "میں یہ چیز ایک سال سے برداشت کر رہا تھا اور انتظامیہ کے کچھ لوگوں نے چارج سنبھالنے کے بعد سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈالنا شروع کردیا کہ میں نے لیگس اور پیسوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ دی، ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے، کچھ سابق کرکٹرز ٹی وی پر مجھے 2010 کا بھی طعنہ دیتے ہیں، لیکن اپنی غلطی ماننے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا، میں نے اپنی غلطی سب کے سامنے مانی، معافی مانگی اور تمام صورتحال کا سامنا کیا۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ مجھے لیگ کھیلنی ہیں اس لیے مجھے ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچز کے اسکواڈ کا حصہ نہ بنائیں، میں ہر وقت دستیاب تھا جبکہ لیگ کے لیے محدود این او سیز جاری ہوتی ہیں، انہوں نے لوگوں کے ذہنوں میں میرے خلاف باتیں ڈال کر میرا کردار خراب کرنا شروع کردیا جس سے میں تنگ آگیا، میں اگر کمزور ہوتا تو 2010 کے بعد دوبارہ کبھی کرکٹ کھیلتا ہی نہیں"۔
ان کا کہنا تھا کہ "میری احسان مانی یا وسیم خان سے کوئی لڑائی نہیں ہے، میرا صرف یہ کہنا تھا کہ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ جس طرح کھلاڑیوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے یہ نہیں ہونا چاہیے، "جو ہم کہیں وہ کریں" والی چیز ختم ہونی چاہیے، آج کا دور عزت دے کر عزت لینے کا ہے اور انتظامیہ کو اپنے اندر کا باس ختم کرنا پڑے گا"۔
فاسٹ باؤلر نے کہا کہ "پھر یہ تاثر دیا گیا کہ میں کارکردگی نہ دکھانے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوا، جب آپ نے میرا دورہ نیوزی لینڈ کے لیے انتخاب نہیں کیا تو موقع ملنے پر لنکا پریمیئر لیگ کھیلنے گیا، حارث رؤف کا بھی آپ نے بگ بیش لیگ میں اچھی کارکردگی کی بنا پر انتخاب کیا، جب میرا انتخاب نہیں ہوا تو میں نے ٹوئٹر پر اس پر ردعمل بھی دیا کیونکہ مجھے برا لگا تھا، اگر میں واقعی پاکستان کے لیے نہ کھیلنا چاہتا تو ردعمل ہی نہیں دیتا"۔
انہوں نے کہا کہ "موجودہ انتظامیہ کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ مجھے ڈراپ ہونے کا سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلا ہے یعنی آپ کی نظر میں ایک کھلاڑی کی اتنی بھی عزت نہیں کہ آپ اسے یہ بتائیں، اگر آپ کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے تو آکر مجھ سے بات کرتے اور مجھے ڈراپ کرنے کی وجہ بتاتے اور اعتماد میں لیتے، جہاں عزت نفس نہیں ہے تو وہاں میں نہیں رہ سکتا"۔
ان کا کہنا تھا کہ "مجھے ٹیم میں واپس یہ لوگ نہیں لائے بلکہ اللہ لے کر آریا ہے، اس کے بعد میں اس وقت کے بورڈ چیئرمین نجم سیٹھی اور کپتان شاہد آفریدی کی کوششوں کی وجہ سے ٹیم میں واپس آیا، جن کے پیٹوں میں اس وقت مروڑ تھا وہ آج بھی ہے اور شاید ہی ختم ہو، میں نے اس اذیت سے نکلنے کے لیے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا، میرے لیے یہ فیصلہ مشکل تھا لیکن بہتری کے لیے لیا یہ بیان عامر نے یوٹیوب چینل پر دیا جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر کافی تنقید ہوئی، عمران خان، شعیب اختر، وسیم اکرم، شاہد آفریدی کیسے کیسے ہیرے ہم نے ضائع کیے مختلف مسائل میں الجھا کر ہم نے انکا کیریئر تباہ کر دیا آج تک پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کوئی ایک کھلاڑی جسے بورڈ نے عزت سے رخصت کیا ہو نہیں کیونکہ بورڈ ممبران صرف اقتدار کے لئے مینجمنٹ میں آتے ہیں انکو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کوئی کھلاڑی مرے جیے یا تباہ ہو محمد عامر جیسے عظیم پلئیر کے ساتھ بھی ہمارے بورڈ نے یہی سلوک کیا وقار یونس کا شکار ہونے والے کھلاڑیوں میں شامل شعیب اختر، سرفراز احمد عبد الرزاق محمد حفیظ اور اب محمد عامر یہ عظیم پلئیر وقار یونس کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یا ہماری قسمت ہی ایسی ہے کہ ہم کبھی اپنے کسی کھلاڑی کو عزت سے رخصت نہیں کر سکتے عامر نے ریٹائرمنٹ لے کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے بورڈ کی اصلیت سامنے آگئی ہے لیکن بہرحال ہم نے ایک عظیم بالر کو کھو دیا اور ہم محمد عامر سے شرمندہ ہیں۔