Hum Munafiq Log
ہم منافق لوگ
میں کچھ عرصہ پہلے لاہور سے نکل رہا تھا شام کے سائے تیزی سے گہرے ہو رہے تھے شہر میں روشنیاں جلنے لگی تھیں سڑکوں پر رونق اور ٹریفک رواں دواں تھی کہیں لوگ ہنستے مسکراتے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جارہے تھے اور کہیں کوئی نوجوان آنکھوں میں اداسی لیے ساکت کھڑا تھا، میں یہ سب دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ہم بہت منافق ہیں ہمارا ظاہر باطن سے بالکل الٹ ہے ہم دل کی اداسی کو اپنے لبوں کی ہنسی میں چھپا لیتے ہیں ہم گہرے دکھ کو بھی ہنس کرچھپا لیتے ہیں، ہم خوشی میں بھی رو پڑتے ہیں ہم اپنے دل و دماغ میں چلنے والی جنگ اور آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو بھی بڑی ادا سے روک لیتے ہیں ہم اگلے انسان کو خبر ہی نہیں ہونے دیتے کہ ہم اندر سے کیسے ہیں ہمارا باطن فرشتہ ہے یا شیطان ہم کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے ہم بنیادی طور پر منافقت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ہم ظاہری طور پر فرشتے ہوتے ہیں اور حقیقت میں شیطان بھی ہم سے پناہ مانگتا ہے ہم دنیا کی نظروں میں بہت اچھے اور نیک ہوتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہمیں ہمارا ضمیر ہی ملامت کر رہا ہوتا ہے۔
میرے ایک دوست لاہور میں بہت بڑے بزنس مین ہیں اللہ نے ان کو کم عمری میں ہی بڑی دولت سے نوازا ہے گھر، گاڑی اولاد اللہ کا دیا سب کچھ ہے، ان کی ایک خاص بات ہے جس کا میں بہت معترف ہوں وہ اللہ کے بہت قریب ہیں پانچ وقت کے نمازی تہجد گزار ہیں نماز کے لیے بڑی سے بڑی میٹنگ چھوڑ دیتے ہیں، نماز رہ جائے تو خود کو سزا دیتے ہیں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہوجاتے ہیں، فجر کی نماز کے لیے اٹھنے میں دقت ہو تو رات فرش پر گزار دیتے ہیں، کبھی روزہ نہیں چھوڑا نفلی روزے بھی رکھتے ہیں، اللہ کے نام پر اکثر خیرات کرتے رہتے ہیں کئی گھروں کی کفالت کرتے ہیں یتیم بچوں کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ راضی ہو جائے، کچھ عرصہ پہلےان کی والدہ کی عیادت کے لیے ان کے گھر جانا ہوا ان کی والدہ کافی بیمار اور پریشان لگ رہی تھیں میں نے پوچھا اماں جی کیا ہوا وہ رونے لگیں میں پاس گیا اور کہا کہ بتائیں کیا بات ہے میں بھی آپ کے بیٹے جیسا ہوں، مجھے بڑے دکھ سے کہنے لگیں کہ میرے بیٹے جیسا نہ بن جانا میں نے کہا کیوں کیا بات ہے، ان کی والدہ نے جو جملہ مجھے کہا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا انہوں نے کہ کہا کہ میرا بیٹا بیوی کے ساتھ مل کر بہت زلیل کرتا ہے اس کی بیوی روز گھر میں لڑتی ہے مجھے گالیاں دیتی ہے میری بیٹیوں کو برداشت نہیں کرتی اپنے بچوں کو ہمارے پاس نہیں آنے دیتی، میں اپنے بیٹے سے کہتی ہوں تو وہ جواب دیتا ہے جیسے میری بیوی کہتی ہے ویسا کر لو ورنہ گھر سے چلے جاؤ، اپنی بہنوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتا، میں کیا کروں معاشرے میں میرے بیٹے کا بہت نام بہت عزت ہے میں عدالت جا کر اسے ذلیل نہیں کرنا چاہتی۔
میں اس کے دینی معاملات کی بات نہیں کرتا کہ وہ کتنا نیک ہے کتنے گھروں کی کفالت کرتا ہے کبھی نماز میں تکبیر اولیٰ بھی نہیں چھوڑتا میں بات کرتا ہوں جو اس کے گھر والوں کے اس ذمہ حقوق ہیں وہ والدہ اور سگی بہنوں کو زلیل وخوار کر کے اللہ کے ہاں اپنا مرتبہ حاصل کر لے گا جنت میں چلا جائے گا اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن میں ایک کم عقل شخص اس بات کا کبھی قائل نہیں ہوا کہ آپ والدین کو پریشان کر کے اللہ سے رحمت کی امید رکھیں ایسا میں نہیں مانتا کہ آپ اپنی ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے اسے رسواء کر کے جنت کے طلبگار ہوں، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ اپنی بہن اپنے گھر کی رونق آپ کے سکھ دکھ میں آپ کو حوصلہ دینے والی بہن کو ذلیل کریں اور اللہ آپ کو معاف کر دیں ایسا ممکن نہیں ہے۔
ہم کیوں اس بات کو نہیں سمجھتے کہ بیویوں کے حقوق ضرور پورے کریں لیکن والدین بہن بھائیوں کے حقوق بھی لازمی پورے کرنے ہیں ورنہ گھاٹے کا سودا ہے آپ حقوق اللہ سارے پورے کر لیں اور حقوق العباد جس میں والدین کا پہلا حق ہے اسے چھوڑ کر آپ اللہ سے اچھے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں، میرا ماننا یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے ان کے بعدباقی ہر چیز، لیکن ہم الٹا چلتے ہیں ہم سب کچھ اول رکھتے ہیں اور والدین، بہن بھائیوں کے حقوق پورے نہیں کرتے یہ کون سا اسلام ہے؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے، اسلام تو یہ ہے لیکن شاید ہم لوگوں نے بد قسمتی سے اسلام کو پڑھا نہیں ہے۔
ہم اسلام کو پڑھنا شروع کر دیں تو والدین کی عزت و احترام میں اتنی تفصیل سے وضاحتیں ہیں کہ انسان کو کچھ اور سوچنے کی ضرورت ہی نہ پڑے میں سوچتا ہوں کہ ہم لوگوں کو دیکھانے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں حقوق اللہ تو سب پورے کرتے ہیں لوگوں کے سامنے بڑے نیک پارسا بنتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے کہ ہم منافق ہیں ہمارا اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی سلوک اچھا نہیں ہم اپنے والدین کے ساتھ ہی برتاؤ ٹھیک نہیں کرتے ہم لوگوں کے لیے نیک بنتے ہیں لیکن سچ میں ہم جھوٹے ہیں ہم ظالم ہیں اپنے والدین کے گنہگار ہیں والدین کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے یہ تو کبھی ہم نے پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی اسلام تو کہتا ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور جہاد کے لیے اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اس سے استفسار فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ تو اس نے کہا: جی ہاں، تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت میں جد و جہد کر، لیکن ہم نہیں کرتے ہم ان کی خدمت تو کیا ہم ان کے حقوق بھی پورے نہیں کر پاتے ہم بہنوں کا وراثت سے حصہ کھا جاتے ہیں ہم بہنوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے دیتے ہیں شادی کے بعد ہمیں بہنیں بھی اچھی نہیں لگتیں ہم بیوی کے پیچھے بہنوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں ہم والدین کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ہم گھر میں دیوار کر لیتے ہیں۔
میں جب کسی گاؤں میں شام کے وقت کسی کچے مکان میں باورچی خانے میں سب بہن بھائیوں کو ایک ساتھ ماں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتےدیکھتا ہوں تو بے اختیار دل میں ٹھیس اٹھتی ہے کہ کیوں یہی بچے شادی کے بعد بدل جاتے ہیں کیوں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں مجھے خود سے جواب نہیں مل پاتا میں یہ سوال یہ واقعہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا ہم واقعی لوگوں کے لیے نیک بنتے ہیں حقیقت میں ہمارے گھریلو معاملات درست نہیں ہوتے کیا واقعی ہم منافق لوگ ہیں؟